مرے قلم کو سخن اتنا ہو عطا مولا
لکھوں میں حمد کروں میں تری ثنا مولا
جہاں کے والی و اپنے حبیب کے صدقے
کرو نا دان مجھے طاقتِ دعا مولا
نا حور مانگوں نا جنت کا ہے مجھے لالچ
اگر جو مانگوں تو مانگوں تری رضا مولا
تمہارے نور کے جلووں کو کوئی کیا سمجھے
ہے تیری ذات خرد سے بھی ماورا مولا
دیارِ درد میں رہنا بڑی صعوبت ہے
تو اپنے بندے کو اتنا نا آزما مولا
ترے کرم کے سوا چار سو اندھیرا ہے
بھٹک گیا ہوں مجھے راستہ دکھا مولا
ترا فقیر ہوں مالک ہے آرزو اتنی
جو ذات حق ہے کروں اُس سے میں وفا مولا
تُو اپنی رحمتِ اولا کا پھر دکھا جلوہ
کہ ڈوبتے ہوئے یاسر کو پھر بچا مولا

142