لاکھ چاہا مگر مِلا ہی نہیں |
اپنی قسمت میں چین تھا ہی نہیں |
کس لئے حق جَتانے آ بیٹھے |
خود سے مَنسوب تو کِیا ہی نہیں |
اپنی حالت تو غیر ہے تب سے |
تیرے دل کو مگر پَتا ہی نہیں |
کتنی عجلت میں چل دیے اُٹھ کر |
کان فریاد پر دَھرا ہی نہیں |
یوں زمانہ مجھے ستائے ہے |
جیسے میرا کوئی خُدا ہی نہیں |
اِس تمنا میں عمر بھر تڑپے |
تُو نے اپنا مگر کہا ہی نہیں |
کیسے مانوں میں چارہ گَر اُسکو |
حالِ دل سے جو آشنا ہی نہیں |
گو کہ ماہر تھا دَس زُبانوں کا |
بات دل کی سمجھ سکا ہی نہیں |
کل وہ گُزرا قریب سے لیکن |
دو گھڑی دیکھ کر رُکا ہی نہیں |
حِیف دَر حِیف ایسے عاشق پر |
دردِ سَر تک جسے ہُوا ہی نہیں |
ہجر کو وہ نہیں سمجھتا , جو |
رات پہروں کبھی چَلا ہی نہیں |
عشق میں نیند زہرِ قاتل ہے |
اِس عبادت کی تَو قضا ہی نہیں |
تیری صورت ہی چاند میں دیکھی |
اور چہرہ کوئی دِکھا ہی نہیں |
مجھ سے پوچھو تو عشق ہے ایسا |
روگ جس کی کوئی دوا ہی نہیں |
کیا خبر اُس کو زندگی کی جو |
عشق نگری تلک گیا ہی نہیں |
کیسا وہ بَد نصیب ہے "یاسر" |
پیار جس کو کبھی ہُوا ہی نہیں |
معلومات