حَسیں خیال جو پیہم اُنہیں ستانے لگے
وہ بے خودی سے مری شاعری سنانے لگے
بڑے غرور سے کہتے تھے یاد آتی نہیں
گئے جو ہجر کی وادی تو گِڑگِڑانے لگے
ہمارے حال پے ہنستے تھے جو سرِ محفل
ہماری یاد میں شمع بھی اب جلانے لگے
دیا پیام بھی قاصد کو بے قراری میں
لیا تھا نام کہ دو ہونٹ کپکپانے لگے
ہمارا ذکر گوارا نہ تھا کبھی جن کو
ہماری بات پہ ہولے سے مُسکرانے لگے
مجھے سخن بھی لگا عین اپنا الہامی
مری غزل جو وہ محفل میں گُنگُنانے لگے
عطائے ربِ جہاں ہے یہ معجزا "یاسر"
اُنہیں ہماری محبت کے خواب آنے لگے

0
97