ایک آواز نے کل رات ، یوں جھنجھوڑ دیا |
میں نے غصے میں سبھی آبلوں کو پھوڑ دیا |
اور معلوم نہیں مجھ کو مگر منصف نے |
میری تقدیر جو لِکھی تو قلم توڑ دیا |
اب تو اشکوں کی روانی میں ترنم بھی نہیں |
رابطہ اس نے مرا درد سے یوں جوڑ دیا |
اس کو معلوم تھا انجامِ محبت لیکن |
اس نے تدبیر سے تقدیر کا رُخ موڑ دیا |
زندہ رہنے کو بچا کچھ بھی نہیں ہے یاسر |
سوچا میں نے تھا مگر اُس نے مجھے چھوڑ دیا |
معلومات