| پا لیا تو پا لیا جس نے تمہیں تقدیر سے |
| تیری اُلفت مل نہیں سکتی کسی تدبیر سے |
| مدتوں کے بعد پھر ہم کو ملا وہ دلنشیں |
| ہم وفورِ شوق میں چمٹے رہے زنجیر سے |
| میں تو ذوقِ گفتگو میں آیا تھا شیریں دہن |
| چند باتیں کر ہی لیتے طالبِ تاثیر سے |
| چار سُو دیکھا نہ پایا تجھکو جب ظلمت کی شب |
| بے خودی میں حالِ دل بولا تیری تصویر سے |
| خوب ہیں وہ خوب ہیں اُن سا جہاں میں کون ہے |
| تیری صورت کو جلا بخشیں گے ہم تقریر سے |
| کیا خبر کوئی مسافر دے ہمیں تیری خبر |
| حال بیٹھے پوچھتے ہیں تیرا ہر راہ گیر سے |
| ہم تمہارے شہر میں اک رات کے مہمان ہیں |
| صبحِ دم اُٹھ جائیں گے اس آپ کی جاگیر سے |
| چاندنی راتوں میں تُو نے لَوٹ کے آنا جو تھا |
| کیا ہوئے پیمان تیرے اس دلِ دل گیر سے |
| مر کہ بھی یہ آنکھیں جنکا راستہ تکتی رہیں |
| تیری تُربت پے وہ یاسر آئے ہیں تاخیر سے |
معلومات