میں اپنی خستہ دراز کھولے
تمہارے خط سب کشید کر کے
تمہاری خوشبو کی تھیلیوں سے
سنہری صندوق بھر رہا ہوں
تمہاری یادوں کے ساحلوں پہ
گھنے ہیں سائے اداسیوں کے
میں ہجر کی دھوپ کا ستایا
انہی کی چھاؤں میں مر رہا ہوں
سمومِ ہجراں میں چلتے چلتے
جھلس گیا تھا وجود میرا
سو اپنی ہستی کے سارے نقشے
حوالے شعروں کے کررہا ہوں
یہ زندگی بھی عذاب ٹھہری
کسی دیوانے کا خواب ٹھہری
میں ایسے جینے سے ڈر رہا ہوں
مثالِ خوشبو بکھر رہا ہوں

0
157