کس لیئے ڈھونڈتا پھرتا ہے کنارے یاسر
عشق کرنا ہے تو پھر چھوڑ سہارے یاسر
درد سے تیرا تو رشتہ ہے پرانا پاگل
تُو سمجھتا ہے سبھی اسکے اشارے یاسر
اب جو روتا ہے مُیسر نہیں آئے تُجھ کو
بول کب تھے وہ ذرا سے بھی تمھارے یاسر
ہجر تو اور بھی چاہت کو ہوا دیتا ہے
عشق نگری میں بھلا کیسے خَسارے یاسر
چند لمحوں کی بھی دُوری کرے دیوانا مزید
تیرے غم روح میں اس طرح اُتارے یاسر
شعر جو وَصل کے لمحوں میں تراشے تُجھ پر
صدیوں بیٹھا اُنہی شعروں کو سنوارے یاسر
من کے آنگن میں ہے مہکار اُنہی کے باعث
ہائے بچھڑے ہوئے وہ لوگ ہمارے یاسر
دل تو کرتا ہے فراغت ہو زمانے بھر سے
تیری یادوں میں سبھی عمر گزارے یاسر
حق محبت کا ادا پھر بھی نہ ہو گا اِس سے
ساری خوشیاں تیری نعلین پے وارے یاسر

0
107