آنکھ سے آنکھ جب ملی ہوگی
زیست لمحوں میں کٹ گٸ ہوگی
میرے کمرے میں اور کیا ہوگا
اس کی تصویر ،،، ہی لگی ہوگی
میز پر میرے خط پڑے ہونگے
اور وہ چپ چاپ دیکھتی ہوگی
اس کی آواز ،،، ایک مرہم ہے
یہ حقیقت کہاں چھپی ہو گی
کیا وہ بچے اٹھا کے گودی میں
شکل میری ہی ڈھونڈھتی ہوگی؟
جب میرے روبرو وہ ہو گی نا
میرے ہونٹوں پہ خامشی ہوگی
عشق جس راستے پہ لایا ہے
غیر ممکن ہے واپسی ہوگی
یاد رکھنا کہ جب ملیں گے ہم
ہجر کی موت ہو چکی ہو گی
میری باتیں پرو کے تسبیح میں
ورد پنجگانہ کر رہی ہو گی
میری یادوں کی ٹھنڈی چھاؤں میں
زندگی ،،، اس نے کاٹ دی ہو گی

0
66