اپنی تو یہ ہی کار گزاری ہے آج تک
جھرنا تمہارے پیار کا جاری ہے آج تک
رب جانتا ہے ہم نے گزاری جیئے بغیر
تیرے بغیر جو بھی گزاری ہے آج تک
اک دن تری نگاہ کو ہم سے بھی پیار ہو
کوشش یہ بارہ سال سے جاری ہے آج تک
جانا کہ تُو اداس ہے پھر اُس گھڑی کے بعد
خوشیوں کا قتلِ عام ہی جاری ہے آج تک
کر میرا اعتبار یوں بد گماں نہ ہو
بولا نا میری جان تمہاری ہے آج تک
صد شکر تیرے پیار نے آغوش لے لیا
تیرے ملن کی شکر گزاری ہے آج تک
دیکھا تھا تُم نے دور سے اور مسکرائے تھے
مجھ پہ سحر نگاہ کا طاری ہے آج تک
اک میں کہ تیری دید کو ترسا تمام عمر
اک تُو کہ میری یاد سے آری ہے آج تک
تجھ سے ملا کہ لائی تھی خوابوں کے شہر میں
یہ نیند تب سے راج دُلاری ہے آج تک
اس بار تُو ہی آئے گا ہم کو منائے گا
یا تیرے رُوٹھ جانے کی باری ہے آج تک
وہ خوش خرام روٹھ گیا میرے شہر سے
مر مر کہ ہم نے زیست گزرای ہے آج تک
بجھنے لگے ہیں آنکھ میں روشن یہ قُمقُمے
دلبر کی تاک میں یہ پجاری ہے آج تک
دامن میں جذب کر گئی آنسو مرے تمام
بارش کی بوند بوند سے یاری ہے آج تک
یاسر کڑا ہے وقت محبت میں کاٹنا
سولی پہ لٹکی جان ہماری ہے آج تک
یاسر تُو جسکے پیار میں درویش بن گیا
اُس کے لبوں کا رنگ اناری ہے آج تک

0
126