یہ دھیمے لہجے میں بات کرتا ترے نگر کا اداس لڑکا
تری محبت کی رہ گُزاروں پہ برف باری میں چل رہا ہے
تمہیں پتا ہے بڑا کٹھن ہے یوں اپنی ہستی سے جنگ لڑنا
مگر اکیلے میں یہ دیوانہ اندھیر رستوں کی سرزمیں پہ
اذیتوں کے تمام نشتر جگر پہ اپنے وصول کر کے
تری تمنا چھپائے دل میں کئی دہائیوں سے چل رہا ہے
ہت ہی بے بس ہے زندگی اب نجانے کیسے کٹے گی یاسر
نا کوئی ہمدم نا کوئی ساتھی نا کوئی دکھ سکھ میں یار اپنا
فقط یہ دردوں کا نرم بستر ہمیں سلاتا ہے پیار کر کے
اداسی رہتی ہے پاس میرے مرے بدن کا حصار کر کے

348