یہ دھیمے لہجے میں بات کرتا ترے نگر کا اداس لڑکا |
تری محبت کی رہ گُزاروں پہ برف باری میں چل رہا ہے |
تمہیں پتا ہے بڑا کٹھن ہے یوں اپنی ہستی سے جنگ لڑنا |
مگر اکیلے میں یہ دیوانہ اندھیر رستوں کی سرزمیں پہ |
اذیتوں کے تمام نشتر جگر پہ اپنے وصول کر کے |
تری تمنا چھپائے دل میں کئی دہائیوں سے چل رہا ہے |
ہت ہی بے بس ہے زندگی اب نجانے کیسے کٹے گی یاسر |
نا کوئی ہمدم نا کوئی ساتھی نا کوئی دکھ سکھ میں یار اپنا |
فقط یہ دردوں کا نرم بستر ہمیں سلاتا ہے پیار کر کے |
اداسی رہتی ہے پاس میرے مرے بدن کا حصار کر کے |
معلومات