درد جس پے نہال ہے مرشد
چلتا پھرتا غزال ہے مرشد
جس میں شامل نہیں تری مرضی
ایسا جینا وبال ہے مُرشد
تیر گہرا اُتر گیا دل میں
چشمِ نم دیکھو لال ہے مرشد
یہ جو اُوڑھی ہے اپنے تن من پر
تیری یادوں کی شال ہے مرشد
سانس رُک رُک کہ میری چلتی ہے
آرزوؤں کا قال ہے مُرشد
کچھ نصیبوں نے ہم کو مارا ہے
کچھ رقیبوں کی چال ہے مرشد
تُو نے دیکھا نہیں پلٹ کے پھر
کیا کہیں بس زوال ہے مرشد
تیری صبحیں سنوار نا پایا
مجھ کو یہ ہی ملال ہے مرشد
یاسر ادنا سا ایک دیوانہ
اور تُو بے مثال ہے مرشد

0
140