یہ مانتا ہوں، ترے حُسن پہ زوال نہیں |
تو خُوبرو ہے تو اِس میں، ترا کمال نہیں |
بہت نحیف سے لہجے کا عام شاعر ہوں |
تمہارے حسن پہ لکھنا ، مری مجال نہیں |
ردیف، قافیہ، منطق، خیال، سب کچھ ہے |
ہمارے پاس نہیں تو ، تری مثال نہیں |
تمام خواب ، جوانی میں کھو دیے میں نے |
مرے نصیب میں شاید ، ترا وصال نہیں |
تمہارے شہر کے لوگوں میں ایک میرے سوا |
تمام خوش ہیں یہاں ، کوئی پُر ملال نہیں |
تمہارا پیار ہے بکھرا ، کچھ اسطرح مجھ میں |
زمانے گزرے ، طبیعت مری بحال نہیں |
یہ کیسی شوخ نگاہوں سے، تُو نے دیکھ لیا |
ابھی تلک ، مری دھڑکن میں اعتدال نہیں |
سلگ رہا ہوں ، محبت کی آنچ میں تنہا |
کہ اب تو چاند بھی میرا ، شریکِ حال نہیں |
یہ میرے گاؤں کے رستوں نے مجھ سے پوچھا ہے |
تمارے سنگ ، تمہارا ، وہ خوش جمال نہیں |
وگرنہ میں نے ، بہت یاد کر کے رکھے تھے |
تُو سامنے ہے تو اب ، کوئی بھی سوال نہیں |
یہ پیارے لوگ ستاروں کی دھول ہیں یاسر |
یہ فلسفہ ہے کوئی ، مَن چلا خیال نہیں |
معلومات