آپ مجھ سے نا اب ملا کیجے
جائیے اور خوش رہا کیجے
میں اندھیروں کا اک مسافر ہوں
مجھ سے بس دور ہی رہا کیجے
آپ سمجھے نہ میری حالت کو
اور قسمت سے کیا گلا کیجے
دَرد اندر سے کھائے جاتا ہے
میرے مرنے کی بس دُعا کیجے
عشق میں انتظار واجب ہے
ہر گھڑی راستہ تکّا کیجے
عشق جب ہجر بانٹنے آئے
پڑھ کے بسم اللہ لے لیا کیجے
موت سے اک سوال ہے میرا
بول سانسوں کیساتھ کیا کیجے
ساری خوشیوں نے ایک ٹھانی ہے
کیوں نا یاسر سے بھی دغا کیجے

0
90