ایسے مشکل حیات ہے یاسر
جیسے جنگل میں رات ہے یاسر
روز ہم کو گلے لگایا کر
اصل یہ ہی نشاط ہے یاسر
شمعِ امید اب بھی روشن ہے
یہ ہواؤں کو مات ہے یاسر
خوش نصیبوں کو مل گئی منزل
اپنا تو ہاتھ پہ ہاتھ ہے یاسر
کیوں سناتے ہو غم ستاروں کو
آج تو چاند رات ہے یاسر
آج منہ پھیر کے جو گزرا تُو
آہ وقتوں کی بات ہے یاسر
اس سے بولو نا اب تو لوٹ آئے
کتنی صدیوں سے رات ہے یاسر
جس کو تنہائی تُو سمجھتا ہے
یہ میری کائنات ہے یاسر
ظلم کی قید سے رہائی دے
ایک اسکی ہی ذات ہے یاسر
کیسے میں زندگی کہوں تجھ کو
زندگی بے ثبات ہے یاسر
تو ہمیں مل کے بھی نا مل پایا
ساری قسمت کی بات ہے یاسر

33