| حالِ دل تم کو جب سنائیں گے |
| لاکھوں کاجل بہائے جائیں گے |
| دولتِ ہجر گر ملی ہم کو |
| وصل کا جی بہت جلائیں گے |
| یاد کر میں نا تجھ سے کہتا تھا |
| ایک دن ہم ملائے جائیں گے |
| ہاتھ پہ تیرا نام لکھ لکھ کہ |
| ہجر کے دن بھی بیت جائیں گے |
| یوں اکیلے نا کوچ کر جانا |
| میری مانو تو ساتھ جائیں گے |
| جب تجھے چھوڑ دے گی یہ دنیا |
| ہو نہ ہو ہم ہی یاد آئیں گے |
| تیرے سب درد و غم جلا کہ ہم |
| راکھ پھر گنگا میں بہائیں گے |
| تیری صُورت سے روشنی لے کر |
| ہم ستاروں کی لَو بڑھائیں گے |
| اتنا کچھ پا لیا ہے چاہت میں |
| زندگی بھر اِسے لٹائیں گے |
| ہجر کا زہر دل میں پھیل گیا |
| اب تو مر کہ ہی چین پائیں گے |
| گر دوبارہ سے یاں یہ ہم لوٹے |
| تجھ سے پھر آنکھ نا لڑائیں گے |
| آ رہے ہیں تمہاری نگری میں |
| زخم گہرے ہیں پر دکھائیں گے |
| حالِ دل اُن سے کہنا مشکل ہے |
| پھر سے دیکھیں گے بھول جائیں گے |
| جانِ درویش تیری راہوں میں |
| جان کیا روح تک لُٹائیں گے |
| کیا خبر کس گھڑی وہ آ جائیں |
| حشر تک ہم دیے جلائیں گے |
| یہ اندھیرے نا پھر سے لوٹ آئیں |
| چارہ گر چاند کو بنائیں گے |
| اور غزلیں نا ایسی لکھ یاسر |
| شعر یہ دل بہت دُکھائیں گے |
معلومات