خیالِ غیر سے دوری کا اہتمام کیا
تمہارے پیار کی خوشبو نے اپنا کام کیا
کڑکتی دھوپ میں سَر پر یہ سائبان بنا
تمھاری یاد کے بادل نے یوں قیام کیا
تمام شعر مہکتے ہیں میری غزلوں کے
مرے سخن کو ترے عشق نے دوام کیا
ہزار صدیاں بھی قربان اُسکے صدقے میں
وہ ایک دن جو ترے ساتھ میں نے شام کیا
تمام جذبوں سے پاکیزگی چھلکنے لگی
تری نگاہ نے لاکھوں کو زیرِ دام کیا
اندھیری رات میں کرنوں کے کارواں اُترے
جب اُس نے ہولے سے کچھ دلنشیں کلام کیا
سوا تمہارے سبھی کچھ فضول لگنے لگا
صلیبِ ہجر کی تلخی نے ایسا کام کیا
ٹھہر گیا جو وہ گلشن میں دو گھڑی یاسر
تمام پھولوں نے جُھک کے اُسے سلام کیا

138