| وہ جو رنجِ جدائی دیتا ہے |
| ہر طرف کیوں دکھائی دیتا ہے |
| گو کہ اوڑھی ہے تُو نے خاموشی |
| پھر بھی مجھکو سُنائی دیتا ہے |
| گو کہ ہجراں کا ٹَلنا مشکل ہے |
| پھر بھی دل یہ دُہائی دیتا ہے |
| ہر طرف ہے فصیل چاہت کی |
| اور کچھ نا سُجھائی دیتا ہے |
| مجھکو بخشی ہیں الفتیں اپنی |
| اور خود کو رہائی دیتا ہے |
| چاہتوں کے عوض میں وہ ہمکو |
| داغِ نا آشنائی دیتا ہے |
| تیرا صدقہ بنا کے سانسوں کو |
| روز تیرا فدائی دیتا ہے |
| دل سے بولا کہ باز آجا اب |
| پھر بھی تیری صفائی دیتا ہے |
| من کی نگری تلک ترا "یاسر" |
| جا تجھے اب رسائی دیتا ہے |
معلومات