جب بھی دیوانہ تری مُشک گنوا دیتا ہے
تیرا لہجہ ، تیری تصویر بنا دیتا ہے
ایک مسکان ہے ، سونے نہیں دیتی مجھکو
ایک چہرہ ہے جو، خوابوں کو ہوا دیتا ہے
درد کی ٹیس کو کم ، وہ نہیں ہونے دیتا
جب بھی ملتا ہے ، کوئی زخم نیا دیتا ہے
دن میں دو بار وہ کرتا ہے مرے زخم ہرے
چُٹکی چُٹکی وہ نمک ، روز لگا دیتا ہے
شورِ آلام کے سائے میں جو سونا چاہوں
ایک سناٹا ، مجھے آ کے جگا دیتا ہے
ایک تتلی ہے جو پھولوں سے ہے ناراض بہت
ایک بلبل ہے جو ، جگنو کو دعا دیتا ہے
دُست بوسی تو وہ ، کرنے نہیں دیتا بالکل
ایسا چالاک ہے ، باتوں میں لگا دیتا ہے
تجھ سے اک بات کہوں ، اچھا کہے دیتا ہوں
تیرا ہنسنا ، مری دھڑکن کو بڑھا دیتا ہے
کیوں نا اِترائے ، ترے پیار کو پا کے یاسر
تجھ سے دلبر بھی تو لوگوں کو خدا دیتا ہے

174