روح کو جسم سے جدا کرنا
اتنا آساں نہیں وفا کرنا
اب میں حساس ہو گیا ہوں بہت
تم بھی جی بھر کہ اب جفا کرنا
خواب سچے نہیں ہوا کرتے
اس لئے جاگتے رہا کرنا
شام ہوتے ہی ڈوب جائے جو
ایسے سورج کا یار کیا کرنا
تیرا غم تجھ سے کتنا بہتر ہے
ِاس سے سیکھو ذرا وفا کرنا
ویسے ہنس ہنس کے بات کرنا پر
تیز بارش میں رو لیا کرنا
دیکھ کاغذ پہ آ رہی ہے نمی
دیکھ لفظوں کا التجا کرنا
جس زمانے میں تم ہمارے بنو
جلد آ جائے تم دُعا کرنا
اب تو عادت سی ہو گئی ہے یار
اب دُکھوں کا شمار کیا کرنا
لکیرِ ہجر جو دیکھی فقیر کہنے لگا
دعائیں مانگتے رہنا خدا خدا کرنا
گر جو فرصت ملے جنابِ مَن
میری غزلیں بھی پڑھ لیا کرنا
یہ خدا کا نظام ہے یاسر
کیا نصیبوں کا اب گلہ کرنا

154