| محفل سے فقیروں کو اُٹھایا نہیں کرتے |
| دیوانوں کو اتنا بھی ستایا نہیں کرتے |
| نازک سا جگر ہوتا ہے کم بخت کا ہمدم |
| شاعر سے کبھی آنکھ چُرایا نہیں کرتے |
| کوئی بھی کہے مان لیا کرتے ہو ویسے |
| درویش کی باتوں میں تو آیا نہیں کرتے |
| غم آئیں گے بارات کی مانند یہاں پیہم |
| دلہن کی طرح دل کو سجایا نہیں کرتے |
| رکھتے ہیں انہیں سب کی نگاہوں سے چھپا کر |
| دردوں کو سرِ عام تو شائع نہیں کرتے |
| لے آئی ترے پیار کی خوشبو ہمیں ورنہ |
| ہم جیسے ترے شہر میں آیا نہیں کرتے |
| مانا کہ وہ پیارے ہیں تمہیں ہم سے زیادہ |
| افلاک سے تارے وہ بھی لایا نہیں کرتے |
| اک بار جو دیکھیں رُخِ دلگیر کا جلوہ |
| پھرچہرے حسیں لاکھ ہوں بھایا نہیں کرتے |
| جن کو نہ قرینہ ہو محبت میں صبر کا |
| وہ درد میں لذت کبھی پایا نہیں کرتے |
| سو جاتے ہیں چپ چاپ سبھی خواب ہمارے |
| اب رات گئے تک یہ رُلایا نہیں کرتے |
| شعروں میں یا غزلوں میں بیاں ہو نہیں سکتے |
| غم عشق کے لفظوں میں سمایا نہیں کرتے |
| پل بھر میں بھُلا کر کے سبھی عہد وفا کے |
| صدیوں کے مسافر کو پرایا نہیں کرتے |
| ہر لمحہ سُلگتے ہیں کسی شمع کی مانند |
| ہم عشق تو کرتے ہیں جتایا نہیں کرتے |
| گر حال وہ پوچھیں تو بتانا سبھی یاسر |
| دلبر سے کوئی زخم چھپایا نہیں کرتے |
| یاسر جو دکھا اُن کو سرِ بزم تو بولے |
| تم جیسوں کو ہم شعر سنایا نہیں کرتے |
معلومات