مِلا ہے کوئی گُلاب جیسا بُھگت رہا ہوں عذاب ایسا
مجال کس کی شباب دیکھے ہے اہتمامِ جحاب ایسا
جگر میں پھیلا تیزاب ایسا لگے ہے پانی شراب جیسا
ہے اُسکی دوری گناہ جیسی مگر ہے درشن ثواب جیسا

0
143