ماتھے سے شکن بالوں سے یہ گرد نکالو
کیا حال بنایا ہے ، ذرا خود کو سنبھالو
ممکن ہے اجالے سے کٹے رات یہ گہری
آنکھوں کے دریچوں میں چراغوں کو اُجالو
اب درد سے لڑ لڑ کے ، بدن ٹوٹ رہا ہے
مادر مری آؤ ، مجھے آنچل میں چھپا لو
مٹ جائے گی ہستی تو خبر لو گے ہماری
اے ناظمِ آلام , مجھے آ کے سنبھالو
اس نیند سے چاہت میں بڑے گھاٹے ہوئے ہیں
سوتے ہوئے لوگوں کو ، اِسی وقت جگا لو
ہنستے ہوئے چہروں کی خبر بعد میں لینا
رو رو کہ جو ہلکان ہے ، اُس کو تو منا لو
اب سامنے بیٹھا ہے وہ ، دل دار تمہارے
ہمت ہے تو چہرے سے ، نگاہوں کو ہٹا لو
کیسے تمہیں لب پہ میں ، لاؤں سرِ محفل
اے ذہن میں آئے ہوئے ، گُم گَشتہ سوالو
دیوانے سبھی رات سے غَش کھا کے پڑے ہیں
مئے خانے میں سنِّاٹا ہے ، ساغر تو اچھالو
اک جلوہ رخِ یار کا ، چھانے کو ہے یاسر
اے شمس و قمر ، اپنی نظر آج جھکا لو

9
333
بہت عمدہ
شااندااااار

کمال کہا ہے، جیتے رہیں صاحب ،،،

اب سامنے بیٹھا ہے وہ ، دل دار تمہارے
ہمت ہے تو چہرے سے ، نگاہوں کو ہٹا لو
۔۔
اک جلوہ رخِ یار کا ، چھانے کو ہے یاسر
اے شمس و قمر ، اپنی نظر آج جھکا لو

جناب یاسر بھائی، آپ تو چھپے رستم نکلے،ماشاء اللہ۔۔۔

بہت شکریہ بہت نوازش،، خاکسار سب کا ممنون ہے

0
بہت خوب بہت ساری داد قبول کریں۔


اب درد سے لڑ لڑ کہ بدن ٹوٹ رہا ہے

دیوانے سبھی خاک میں غش کھا کہ پڑے ہیں

ان دونوں مصرعوں میں کہ کے بجائے کے کا محل ہے۔



Bht shukriya mam r ya typing mistake

ماشااللہ
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔

Bhtt nawazish mohtaram

0