ماتھے سے شکن بالوں سے یہ گرد نکالو |
کیا حال بنایا ہے ، ذرا خود کو سنبھالو |
ممکن ہے اجالے سے کٹے رات یہ گہری |
آنکھوں کے دریچوں میں چراغوں کو اُجالو |
اب درد سے لڑ لڑ کے ، بدن ٹوٹ رہا ہے |
مادر مری آؤ ، مجھے آنچل میں چھپا لو |
مٹ جائے گی ہستی تو خبر لو گے ہماری |
اے ناظمِ آلام , مجھے آ کے سنبھالو |
اس نیند سے چاہت میں بڑے گھاٹے ہوئے ہیں |
سوتے ہوئے لوگوں کو ، اِسی وقت جگا لو |
ہنستے ہوئے چہروں کی خبر بعد میں لینا |
رو رو کہ جو ہلکان ہے ، اُس کو تو منا لو |
اب سامنے بیٹھا ہے وہ ، دل دار تمہارے |
ہمت ہے تو چہرے سے ، نگاہوں کو ہٹا لو |
کیسے تمہیں لب پہ میں ، لاؤں سرِ محفل |
اے ذہن میں آئے ہوئے ، گُم گَشتہ سوالو |
دیوانے سبھی رات سے غَش کھا کے پڑے ہیں |
مئے خانے میں سنِّاٹا ہے ، ساغر تو اچھالو |
اک جلوہ رخِ یار کا ، چھانے کو ہے یاسر |
اے شمس و قمر ، اپنی نظر آج جھکا لو |
معلومات