میں غزل نہیں کوئی میر کی نہ میں داستاں ہوں شہیر کی
|
میں ہوں نالۂ شب سہ پہر میں صدا ہوں بے کل فقیر کی
|
کبھی سر بہ سجدہ جبین تھی میں نمازیوں کی زمین تھی
|
مجھے آکے کوئی رہا کرے یہی مُدّعا مجھ اسیر کی
|
ذرا غور کر کبھی خود سے مل ترے پہلو میں بھی ہے ایک دل
|
کبھی آپ اپنا بھی جائزہ لو سنوں تم صدائیں ضمیر کی
|
|