Circle Image

Dp saher

@Dpsaher

آنکھوں نے کبھی میری یہ منظر نہیں دیکھا
گرتا ہوا ندی میں سمندر نہیں دیکھا
دی لاکھ صدائیں مُجھے اُس شخص نے لیکن
یک بار بھی میں نے اسے مڑ کر نہیں دیکھا
پل بھر میں وہ قاتل ہے تو پل بھر میں مسیحا
اُس جیسا عجب میں نے ستم گر نہیں دیکھا

4
176
اُن سےپوچھو مری خطا کیا ہے
سچ ہی بولا تھا پھر برا کیا ہے
بجھ چکیں جب تمام قندیلیں
پھر یہ آنکھوں میں جل رہا کیا ہے
مخلصی میں بھی اب ملاوٹ ہے
سب ہے کھوٹا تو پھر کھرا کیا ہے

4
183
کہاں جا رہے ہو! بڑھے سوئے پستی
کہ بیدار ہو جاؤ چھوڑو یہ مستی
مقامات اوج و ثریا کو چھوڑا
بلندی سے رخ اپنا پستی میں موڑا
رہے نام کے اب ہیں ہم بس مسلماں
نہ اسلاف سا اب رہا ہم میں ایماں

0
1
97
زبان و لب کی ہے سالار اب یہ پابندی
ہیں سب گرفت میں اس کے عجب یہ پابندی
یہ جب ہے درج کہ آزاد ہر فریق یہاں
حرم پہ روک ہے، کیسی ہے تب یہ پابندی؟
قطاریں آپ لگاؤ تو کچھ نہیں ہوتا
صفِ نماز پہ پھر بے سبب یہ پابندی؟

0
97
عارضی ہیرے میں راتوں کو چمک ڈھونڈتے ہو
چوڑیاں کانچ کی ہیں کیا کہ کھنک ڈھونڈتے ہو
پھول جو کل تھا کھلا آج وہ مرجھا ہے چکا
حسن کی اپنے لطافت بھی وہ دکھلا ہے چکا
آج کے پھول میں تم کل کی مہک ڈھونڈتے ہو
کتنے نادان ہو صحرا میں دھنک ڈھونڈتے ہو

0
73
کوئی بستی یا پھر نگر آئے
ختم ہونے کو یہ سفر آئے
آج اُن کی گلی سے گزری تو
جانے کیا کیا خیال در آئے
دیکھ کر نقشِ پا ستم گر کے
ہائے ہم اُن پہ پھر سے مر آئے

0
163
تخیل سے مرے وہ شمعِ نورانی نہیں جاتی
کہ عاشق زار پروانوں کی نادانی نہیں جاتی
بہت چاہا کہ چھٹکارا ملے مجھ کو تردد سے
مگر میں کیا کروں میری پریشانی نہیں جاتی
بہ کثرت آبرو ریزی کے قصے روز سنتی ہوں
مگر پھر بھی یہ عالم ہے کہ حیرانی نہیں جاتی

0
131
زیست اپنا وقار مانگتی ہے
گوہرِ آب دار مانگتی ہے
کوئی لیلیٰ پسار کر دامن
اپنے مجنوں کا پیار مانگتی ہے
کون وہ خوش نصیب ہے کہ جسے
زندگی بار بار مانگتی ہے

0
194
کہیں خاموش جنگل کے کسی تاریک گوشے میں
صدائے دردمند ہے جو مسلسل گونجا کرتی ہے
کبھی وہ دامن کوہسار سے جاکر لپٹتی ہے
کبھی وہ آسمان بیکراں سے جا چمٹتی ہے
عجب تاریک صحراؤں کے دامان پریشاں میں
شجر مایوس اور بیزار صف بستہ کھڑے ہیں

190
عشق میں دل خراب کرتے ہیں
زیست اپنی عذاب کرتے ہیں
چشمِ قاتل کو کھول رکھا ہے
زعم ہے ہم حجاب کرتے ہیں
حکمرانوں کو گالیاں دے کر
ہم تو کار ثواب کرتے ہیں

94
بات گر بگڑے تو پھر جھک کے بنا لی جائے
روٹھ جائے جو محبت تو منا لی جائے
میرے مولا کبھی وہ دن نہ دکھانا مجھ کو
کہ تہی دست مرے در سے سوالی جائے
اس سے پہلے کہ ہم عازم ہوں سوئے شہر عدم
آؤ اس واسطے کچھ نیکی کما لی جائے

2
148
نہ بچپن کی امنگیں ہیں نہ ہیں وہ شوخیاں باقی
تعاقب میں تھے جن کے ہم نہیں وہ تتلیاں باقی
چڑھا دو مجھ کو سولی پر کہ جھونکو آگ میں مجھ کو
میں سچ کو سچ ہی لکھونگی ہے جب تک مجھ میں جاں باقی
وہ دروازہ جسے ہم کھٹکھٹا کر بھاگ جاتے تھے
وہ کنڈی اب سلامت ہے؟ہے اب بھی وہ مکاں باقی؟

2
162
تنگ و تاریک سا حصار ہوں میں
روحِ ارضی ترا مزار ہوں میں
کر سکی میں ادا نہ قرض ترا
زندگی تیری قرضدار ہوں میں
تہمتیں تُجھ پہ ساری ناحق تھیں
سچ تو یہ ہے ستم شعار ہوں میں

137
چلو بے سبب ہم یونہی مسکرائیں
کہ کچھ دیر ہر رنج و غم بھول جائیں
بہت شور کرتی ہوا چل رہی ہے
جلا کر دیئے اس کا زور آزمائیں
سہیں ظلم چپ چاپ کب تک ہم آخر!
یوں جینے سے بہتر ہے ہم مر ہی جائیں

172
کیا یہ ممکن نہیں؟؟
تم مجھے اس طرح سے نہ دیکھا کرو
میری آنکھوں میں ایسے نہ جھانکا کرو
کہ کہیں رازِ دل تم پہ ہو نہ عیاں
میرے جذبات آنکھیں نہ کر دیں بیاں
دل میں میرے بپا ہے جو طوفانِ عشق

121
میں غزل نہیں کوئی میر کی نہ میں داستاں ہوں شہیر کی
میں ہوں نالۂ شب سہ پہر میں صدا ہوں بے کل فقیر کی
کبھی سر بہ سجدہ جبین تھی میں نمازیوں کی زمین تھی
مجھے آکے کوئی رہا کرے یہی مُدّعا مجھ اسیر کی
ذرا غور کر کبھی خود سے مل ترے پہلو میں بھی ہے ایک دل
کبھی آپ اپنا بھی جائزہ لو سنوں تم صدائیں ضمیر کی

2
170
اس نے پوچھا تمہیں تتلیاں پسند ہیں نہ؟
میں نے اثبات میں سر ہلا دیا
اُدھر خاموشی رہی۔۔۔۔
اک لمبا سکوت رہا
مگر میں کشمکش میں مبتلاء رہی
کیا میں اسے بتاؤں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟

0
98
اُداس تنہا،کھڑی ہوں گم سم،ہیں مجھ میں پنہاں ہزارہا غم
ہیں سرد آہیں،اُداس راہیں،امید زخمی،یقین بے دم
شکستہ دل کے ہزار ٹکڑے بکھر کے سینے میں چبھ رہے ہیں
بلاؤ یاروں کو اور توڑیں لگائیں خنجر کہ زخم ہے کم
بلا بلا کر سمیٹ لی ہیں ہجوم دنیا کی نالشوں کو
وجود گھائل،ہے روح زخمی،بے ربط رنجش نہ تال نہ سم

1
196
آ گئے ہو تو تعارف بھی کراتے جانا
مجھ سے ملنے کے مقاصد بھی بتاتے جانا
آج میں عکس سے خود اپنے لپٹ کر روئی
کچھ نئے درد مجھے پھر بھی تھماتے جانا
مجھ پہ جچتی ہے تڑپ اور چبھن زخموں کی
نت نئے طرز سے تم مجھ کو ستاتے جانا

2
126
علم طبعی کے اصولوں کو بدل کر دیکھیں
ہم ذرا دیر ہواؤں میں ٹہل کر دیکھیں
ابر تھم جاتا ہے پر چھت ہے برستی تادیر
ٹھہریں اک رات مرے گھر پہ بہل کر دیکھیں
پیٹ کی آگ سے بڑھ کر کوئی آتش ہی نہیں
بھوک کیا شئے ہے کبھی بھوک میں جل کر دیکھیں

0
101