میں غزل نہیں کوئی میر کی نہ میں داستاں ہوں شہیر کی
میں ہوں نالۂ شب سہ پہر میں صدا ہوں بے کل فقیر کی
کبھی سر بہ سجدہ جبین تھی میں نمازیوں کی زمین تھی
مجھے آکے کوئی رہا کرے یہی مُدّعا مجھ اسیر کی
ذرا غور کر کبھی خود سے مل ترے پہلو میں بھی ہے ایک دل
کبھی آپ اپنا بھی جائزہ لو سنوں تم صدائیں ضمیر کی
دلِ منتظر ہے اُداس کیوں اسے اب بھی اس کی ہے آس کیوں
وہ تھا بے وفا اُسے بھول جا یہی رائے ہے مجھ مشیر کی
یہاں تیرا میرا ہے کیا گزر یہ محبتوں کا نہیں نگر
کسی اور سمت کو رخ کریں کہ یہ بستیاں ہیں امیر کی

2
170
غزل خوب ہے، زمیں بھی کمال ہے۔۔۔
البتہ کچھ مقامات پہ وزن ٹوٹ رہا ہے ۔۔۔
یعنی: پہلے، دوسرے، چھٹے اور آٹھویں مصرع میں۔۔۔

0
شکریہ
بس ذرا سا ہنٹ چاہیئے تھی۔۔۔۔تا کہ میں اس خامی کو دور کر سکوں۔

0