میں غزل نہیں کوئی میر کی نہ میں داستاں ہوں شہیر کی |
میں ہوں نالۂ شب سہ پہر میں صدا ہوں بے کل فقیر کی |
کبھی سر بہ سجدہ جبین تھی میں نمازیوں کی زمین تھی |
مجھے آکے کوئی رہا کرے یہی مُدّعا مجھ اسیر کی |
ذرا غور کر کبھی خود سے مل ترے پہلو میں بھی ہے ایک دل |
کبھی آپ اپنا بھی جائزہ لو سنوں تم صدائیں ضمیر کی |
دلِ منتظر ہے اُداس کیوں اسے اب بھی اس کی ہے آس کیوں |
وہ تھا بے وفا اُسے بھول جا یہی رائے ہے مجھ مشیر کی |
یہاں تیرا میرا ہے کیا گزر یہ محبتوں کا نہیں نگر |
کسی اور سمت کو رخ کریں کہ یہ بستیاں ہیں امیر کی |
معلومات