| آ گئے ہو تو تعارف بھی کراتے جانا |
| مجھ سے ملنے کے مقاصد بھی بتاتے جانا |
| آج میں عکس سے خود اپنے لپٹ کر روئی |
| کچھ نئے درد مجھے پھر بھی تھماتے جانا |
| مجھ پہ جچتی ہے تڑپ اور چبھن زخموں کی |
| نت نئے طرز سے تم مجھ کو ستاتے جانا |
| خلق غفلت میں پڑی سوئی ہے زیرِ گردوں |
| سب ہوں بیدار صدا ایسی لگاتے جانا |
| ہر تعلّق کو ضرورت نہیں پیدا کرتی |
| خود غرض ہیں جو اُنہیں تم یہ بتاتے جانا |
| جس جگہ عقل کی تدبیر نہ کچھ کام آئے |
| اس جگہ عشق کا تم سحر چلاتے جانا |
| اب تو بس کردو سحؔر گو کہ زباں رکھتی ہو |
| یہ بھی کیا طرز ہے،ہمراز بناتے جانا |
معلومات