| نہ بچپن کی امنگیں ہیں نہ ہیں وہ شوخیاں باقی |
| تعاقب میں تھے جن کے ہم نہیں وہ تتلیاں باقی |
| چڑھا دو مجھ کو سولی پر کہ جھونکو آگ میں مجھ کو |
| میں سچ کو سچ ہی لکھونگی ہے جب تک مجھ میں جاں باقی |
| وہ دروازہ جسے ہم کھٹکھٹا کر بھاگ جاتے تھے |
| وہ کنڈی اب سلامت ہے؟ہے اب بھی وہ مکاں باقی؟ |
| کوئی شکوہ نہیں تم سے نہ مجھ کو کچھ شکایت ہے |
| تو پھر دل میں خلش کیوں ہے؟ہیں کیوں بیتابیاں باقی؟ |
| وہی بہتر سخنور ہے کہ جو ہو ترجمانِ حق |
| وگر نہ ایسے ویسوں کے کہاں نام و نشاں باقی |
| جو مدت بعد آئے ہو تو لازم خیر مقدم ہے |
| جنابِ درد! ٹھہرو تو،ہیں کچھ تیاریاں باقی |
| ابھی تو رقم کرنے ہیں دلِ بیتاب کے قصّے |
| ابھی وہ درد لکھنے ہیں کہ ہے جن کا بیاں باقی |
| جلا کر خاک کر دینگی امیروں کے حسیں ایوان |
| سحؔر ! ہیں راکھ کی تہہ میں ابھی چنگاریاں باقی |
معلومات