| کوئی بستی یا پھر نگر آئے |
| ختم ہونے کو یہ سفر آئے |
| آج اُن کی گلی سے گزری تو |
| جانے کیا کیا خیال در آئے |
| دیکھ کر نقشِ پا ستم گر کے |
| ہائے ہم اُن پہ پھر سے مر آئے |
| مانگتی ہُوں میں دل کی شادابی |
| کچھ دعاؤں میں بھی اثر آئے |
| منتظر ہوں میں ایک مدت سے |
| آہ اے کاش وہ نظر آئے |
| برگ و گل مضمحل سے لگتے ہیں |
| اب تو شاخوں پہ کچھ ثمر آئے |
| کچھ وہ پہلے سے بھی پریشاں تھا |
| کچھ پریشان ہم بھی کر آئے |
| بعد مُدت کے اے سحؔر ہم تو |
| لوٹ کر آج اپنے گھر آئے |
معلومات