عشق میں دل خراب کرتے ہیں
زیست اپنی عذاب کرتے ہیں
چشمِ قاتل کو کھول رکھا ہے
زعم ہے ہم حجاب کرتے ہیں
حکمرانوں کو گالیاں دے کر
ہم تو کار ثواب کرتے ہیں
ہم سے سرزد ہوئیں خطائیں جو
آج ان کا حساب کرتے ہیں
پیاس سے جان جا رہی ہے ،اور
دشت پیدا سراب کرتے ہیں
طرز تحریر سب کی یکساں ہے
کچھ الگ انتخاب کرتے ہیں
یہ تو کلیاں تھی بس ،سحؔر ہم تو
خار کو بھی گلاب کرتے ہی

94