| بات گر بگڑے تو پھر جھک کے بنا لی جائے |
| روٹھ جائے جو محبت تو منا لی جائے |
| میرے مولا کبھی وہ دن نہ دکھانا مجھ کو |
| کہ تہی دست مرے در سے سوالی جائے |
| اس سے پہلے کہ ہم عازم ہوں سوئے شہر عدم |
| آؤ اس واسطے کچھ نیکی کما لی جائے |
| مجھ کو ہر مصرعے پہ تحسین بری لگتی ہے |
| شمعِ محفل مرے آگے سے اٹھا لی جائے |
| سب کے ہونٹوں پہ ہنسی اور تبسّم بکھرے |
| ایسی اک بستی تخیّل میں بسا لی جائے |
| کہیں آنکھوں سے مرے درد کی تشہیر نہ ہو |
| کیوں نہ مسکان ان ہونٹوں پہ سجا لی جائے |
| چاک ہر روز گریبان سحر ہوتا ہے |
| بڑھ کے دستار اُجالوں کی سنبھالی جائے |
| خلعت فاخرہ پہنے بھی برہنہ ہیں جو |
| اُن امیروں کے لئے کوئی قبا لی جائے |
| اس سے دیکھا نہ گیا تیرنا مر کر بھی مرا |
| حکم دیتا ہے مری لاش نکالی جائے |
| کرکے ناداروں کی ،غرباء کی مدد آؤ سحؔر |
| بعد مرنے کے بھی جینے کی دعا لی جائے |
معلومات