عارضی ہیرے میں راتوں کو چمک ڈھونڈتے ہو
چوڑیاں کانچ کی ہیں کیا کہ کھنک ڈھونڈتے ہو
پھول جو کل تھا کھلا آج وہ مرجھا ہے چکا
حسن کی اپنے لطافت بھی وہ دکھلا ہے چکا
آج کے پھول میں تم کل کی مہک ڈھونڈتے ہو
کتنے نادان ہو صحرا میں دھنک ڈھونڈتے ہو
میں بدل سی گئی پر تم بھی نہیں اب وہ رہے
ہم کو اقرار رہا ہم نے یہ تسلیم کیے
پھر کیوں مجھ میں ہی وہ پارینہ ادا ڈھونڈتے ہو
دونوں یکساں ہیں تو پھر کس میں جفا ڈھونڈتے ہو
تلخ گوئی نے لہو کر دیا رشتوں کا جگر
نرم گفتار کا ہوتا نہیں اب دل پہ اثر
دل ناسور میں خوشیوں کی چمک ڈھونڈتے ہو
زیست کی قلب شکستہ میں رمق ڈھونڈتے ہو
تم ہی سب کچھ ہو مرا، میں نے کہا کب ایسا؟
تم ہی سرمایۂ راحت ہو ، نہیں کچھ ایسا
ثبت پانی کے بیاباں میں قدم ڈھونڈتے ہو
کتنے نادان ہو کعبے میں صنم ڈھونڈتے ہو

0
73