اُن سےپوچھو مری خطا کیا ہے
سچ ہی بولا تھا پھر برا کیا ہے
بجھ چکیں جب تمام قندیلیں
پھر یہ آنکھوں میں جل رہا کیا ہے
مخلصی میں بھی اب ملاوٹ ہے
سب ہے کھوٹا تو پھر کھرا کیا ہے
معاف کرتی ہوں ہر خطا تیری
اس سے بڑھ کر کوئی سزا کیا ہے
اپنے اعمال ساتھ جائیں گے
کیا دعا ، اور بد دعا کیا ہے
ایک دل تھا جو مر مٹا تُم پر
میرے پہلو میں اب دھرا کیا ہے
عشق سمجھے ہے خامشی کی زباں
پھر یہ اظہار برملا کیا ہے
جب وہ دیتا ہے بن کہے سب کچھ
اے سحؔر پھر یہ مانگنا کیا ہے

4
218
بہت خوب
بہت خوب

0
واہ بہت خوب

0
"کیا ہے * کو کیا ہی اچھا باندھا ہے آپ نے ۔ روانی پسند آئی- خیال اچھا ہے - دوسرا مصرع ذرا کمزور لگا قندیلیں کی جگہ شاید کوئی اور لفظ بہتر ہو- قندیل تمنا - پھر آنکھوں میں جل رہا کیا ہے ۔۔۔اس غزل کے ضمن میں وہ زمین غزل یاد آتی ہے ۔
* پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟* ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے ؟ غالب
مقطع وضاحت طلب ہے کہ اس یعنی خدا نے خود کہا ہے کہ مجھ سے مانگو میں عطاء کروں گا ۔ تو فلسفیانہ استدلال میں آپ اس کو وضاحت میں لائیں- جو وہ بن مانگے دیتا ہے جیسے رزق وغیرہ جو اپنے منکروں کو بھی دیتا ہے مگر مانگنا ہی تو حسن ادا ہے کیوں کہ مشکلوں میں اسی سے مانگا جاتا ہے- تو کچھ بن مانگے ملتا ہے کچھ مانگ کر پر ہر وقت ہم ہی اس کے محتاج ہیں کہ مانگنا ہمارا نصیب اور وہ بے نیاز ہے

0
صرف ایک جگہ تکنکی درستگی کی ضرورت ہے
"معاف" کرتی ہوں ہر خطا تیری
معاف کی تقطیع _=_ ہے جبکہ مطلوبہ وزن =_
I suggest, rephrase it.
Regards
Adnan mogal

0