اسلام آباد کے سیکٹر جی -ایٹ میں بہت سناٹا تھا، لوگوں میں عجیب و غریب سایوں کے کئی دفعہ دیکھے جانے پر شدید خوف و ہراس تھا- کچھ کہتے تھے کہ یہ ان کا وہم تھا، ،مگر کچھ قسم کھاتے تھے کہ انھوں نے بھدی چڑیلوں کو گلیوں میں چلتے دیکھا ہے، ہر رات کو دروازے بجتے تھے، مگر لوگ ڈر کے مارے بستروں میں دُبکے رہتے تھے - ایسے ہی ایک پورشن میں اصغری بھی اپنے بستر میں دبکی تھی، کہ دروازہ دھڑ دھڑ، بہت زور سے بجا ۔ لائٹ تھی نہیں، بیچاری کے دماغ پر چڑیلیں چھانے لگیں، جب کافی دیر تک دروازہ بجتا رہا، تو وہ دل میں آیتیں پڑھنے لگی- پھر ایک خاموشی چھا گئی، اس نے سکون کا سانس لیا ہی تھا، کہ اسے لگا کہ کچن کی طرف کھُلنے والی کھڑکی میں کچھ کھٹکا سا ہوا، اس کی تو مانو بدن سے جان ہی نکل گئی ، پہلے اس نے سوچا کوئی بلی ہو گی، مگر جب ایسے لگنے لگا کہ کوئی کھڑکی کی سلاخوں میں ہاتھ ڈال کر کنڈی کھولنے کی کوشش کر رہا ہے ، تو اصغری تھر تھر کانپنے لگی، اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ ساتھ والے کمرے میں جا کر پولیس کو فون ہی کر سکے - ڈر کے مارے اس کے رونگٹھے کھڑے ہو گۓ،اوپر سے وہ اکیلی تھی، اس نے آیت الکرسی پڑھنے کی کوشش کی مگر وہ اسے یاد ہی نہیں آ
یہ ...آہ ..آہم ...یہ کیا ہے؟ (حیرانی سے ) بھنڈی گوشت ( بڑی بے نیازی سے جواب ملا ) (تیز لہجے میں )کاش تمھارے گھر والوں نے کچھ تو سکھا کر بھیجا ہوتا ، ہر روز ایک ہی بھنڈی گوشت کھا کھا کر میری شکل بھنڈی جیسی ہو گئی ہے مہاراجہ جی، یہ گھر ہے تمھارے ابّے کا ہوٹل نہیں... (ترکی بہ ترکی جواب ) دیکھو ، تمیز سے بات کرو، میرے خاندان کو بیچ میں مت گھسیٹو! یہ بات تم پر بھی لاگو ہوتی ہے ، زیادہ بچے نہ بنو ( شرارتی لہجہ ) بچہ تو میں ہوں ... تم سے پورے تین سو دس دن چھوٹا ہوں،( مزے سے جتایا )افلاطون کہیں کے، صاف صاف کہو کہ ١١ مہینے چھوٹا ہوں جو بھی سمجھو، مگر خدا کے لیے یہ بھنڈی گوشت لے جاؤ ( التجایہ لہجہ ) ٹھیک ہے تو پھر بھوکے مرو ...میں تو جا رہی ہوں ارے تیز گام ارے رکو، تو پھر میں کیا نوش فرماؤں گا؟ ( تنگ آ کر کہا ) اتنی دیر سے یہ جو میرا بھیجہ نوش فرما رہے ہو، اسی سے پیٹ بھرو ...(وہی ہٹ دھرمی ) کتنی ظالم ہو تم؟ جو بھی ہوں، تمہارا مجازی خدا، جان وفا اور پتا نہیں کیا کیا ہوں... ایک کاہل، سست الوجود اور چپکو
وہ سب اس کمرے میں ایک بستر کے اردگرد بیحد اداس چہرہ لئے موجود تھے ۔بستر پر ایک بوڑھا شخص آنکھیں بند کیے ا ُکھڑی سانسیں لے رہا تھا ۔لگتا تھا کہ اس کا آخری وقت آ چکا ہے ۔اچانک اس نے اپنی آنکھیں کھولیں ۔اپنے پورے خاندان کو گردن گھما کر دیکھا ۔بیوی ، بچے ، بیٹے بیٹیاں عزیز و اقارب سب وہیں تھے ۔مگر اس کی آنکھیں کسی کو کھوج رہی تھیں ۔کسی انجان خلا میں دیکھ رہی تھیں ۔اس کی بیوی آگے بڑھی ۔اور آہستہ سے اس کا تکیہ درست کیا ۔گردن کو سہارا دیا ہی تھا کہ بوڑھے کے لب ہلے ۔وہ ہولے سے کچھ بڑ بڑ ا یا ۔آواز نحیف تھی تو کوئی نہیں سمجھا ۔سب آگے کو جھکے ۔کہ شاید آخری وصیت کر نے لگا ہے ۔تبھی بوڑھا ذرا اونچی آواز میں پھر بولا ۔" سگرٹ " سب یہ سن کر حیران ہو گئے ۔" سگرٹ " سب نے بے یقینی کے عالم میں دہرایا ۔" ہاں ۔مجھے ایک سیگرٹ دو ۔میں ایک کش لگانا چاہتا ہوں "سگرٹ پیش کیا گیا ۔وہ کہنیوں کے بل اٹھا ۔سگرٹ سلگایا اور ایک لمبا کش لیا ۔پھر دھواں ہوا میں پھینکا ۔ایک مرغولا سا بنا جو دائرہ کی شکل اختیار کر گیا ۔بوڑھا داد طلب نظروں سے حاضرین کو دیکھنے لگا ۔ماحول کی ٹینشن ختم ہو چکی تھی ۔سب کے چ
اردو ادب تو وڑ گیا غالب اگر زندہ ہو کر مال روڈ لاہور پہ آج کل کی شاعری یا ناول کی ردی نما کتابیں دیکھ لیں تو پڑھتے ساتھ ہی فی الفور پھر مر نے کو تمنا کریں ۔اور دو گز زمین بھی برما میں واگزار کر ا لیں ۔کیوں کہ اردو ادب تو مکمل وڑ گیا ہے ۔تماشا یہ ہے کہ ۔۔۔شاعری : میر ، غالب ، اقبال سے فیض تک کے شاندار دور کے بعد ہم توُ تران چھو چھک قسم کی شاعری پر براجمان ہیں ۔ شعر کہا نہیں جاتا بلکہ تھوکا جاتا ہے ۔شاعری چھچھو ری بن چکی ہے ۔ثبوت چا ہیے ! کسی بھی موجودہ شاعر کو پڑھ لو ۔99% لغو لکھتے ہیں ۔ڈرامہ : آغا حشر کاشمیری اور امتیاز تاج کا سنہری ڈرامہ اب جگتوں اور بوسیدہ پھکڑ بازی بن کر سٹیج ڈراموں میں مجروں کے بیچ گندے بھنگڑے ڈال رہا ہے ۔ رہا ٹی وی کا ڈرامہ تو وہ محض ایک کمرشل پرواز ہے جس میں ادب کا کوئی محل ہی نہیں بنتا ۔افسوس !افسانہ : منٹو ، کرشن چندر ، غلام عبّاس ، عصمت چغتائی کے کمال افسانوں کے بعد موجودہ افسانہ بانجھ ہو چکا ہے ۔مکمل بانجھ جس سے اب کوئی تخلیق ممکن نہیں ۔بلکہ اس زمرے میں یہ کہنا مناسب ہے کہ افسانہ تو گھسی پٹی سو لفظوں کی کہانی میں بدل چکا ہے
جیسے کتاب کا سرورق اندر موجود مواد بارے ککھ نہیں بتاتا، یعنی Dont judge a book by it's cover تو یہی مصیبت کچھ شاعر حضرات کی ہے تو ایک تخلیق کار کو یا ایک اداکار کو اپنے کردار میں ڈوب کر اپنی تخلیق کو با کمال بنانا ہوتا ہے ۔ کردار ختم یا غزل ختم ، تبھی معاملہ بھی ختم ۔ جب آپ کسی عاشق لاحول ولا کا کردار ادا کر رہیں ہیں تو ویسا ہی سوچ کر ویسا ہی لکھیں گے ۔مگر اس خارجی چھاپ کو ہر گز تخلیق کار پر گوند لگا کر جوڑنا نری حماقت ہے ۔ جس سے اجتناب کرنا چاہیے۔زندگی کی خوبصورتی اسے Enjoy کرنے میں مضمر ہے نا کہ کسی کی دم بن کر اس کے پیچھے بھاگنے میں ہے So, Dont be a tail carrier ... شکریہ کاشف علی عبّاس 3 جون 2024
جان جیجیکیسی ہو جی؟زندہ ہوں ، مزے میں ہوں -کتنے مزے میں؟بدھو - یہ کیا بےتکا سوال ہے ؟چلو تک والا سوال کر لیتا ہوں - یہ بتاؤ کے کیسی ہو؟حد ہے - بتایا تو ہے ابھی -کیا؟اف - پاگل ہو گیے ہو کیا؟ میری جدائی میں تم تو ...بس بس - جدائی والی کوئی بات نہ کرو - میں بقائمی ہوش و حواس پوچھ رہا ہوں کہ ...تمہاری تو توبہ ہی بھلی - پتا نہیں کیا اوٹ پٹانگ باتیں کر رہے ہو-تمھیں سب پتا ہے ... مانو یا نہ مانوآہم -آہم ایسی کوئی بات نہیںاچھا جی ؟ چلو بتا بھی دو کیسی ہو ؟تم صاف صاف بتاؤ پوچھنا کیا چاہتے ہو کہ تمہاری یاد میں پاگل ہوں ؟ دن کو رات اور رات کو دن کہتی ہوں ، ایسی کوئی بات نہیں ، منہ دھو رکھویہ تو ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ والی بات ہوئی - میں حال احوال پوچھ رہا ہوں اور تم بےوقت کی راگنی گا رہی ہوچلو تم کیسی ہو ، کیسی ہو کا راگ الاپ لو، مگر میری جان بخش دویہ ناممکن ہےمیری جان بخشنا ؟نہیں، راگ الاپناافوہڈاکٹر کے پاس گیئی تھی؟کیا مطلب؟ مجھے کیا ہوا ہے جو ڈاکٹر کے پاس جاؤں ؟کان صاف کروانے جاؤ، اتنی دیر سے پوچھ رہا ہوں کے کیسی ہو اور تم ...بس بس، بہت ہو گیا مذاق - تکلیف کیا ہے تمھیں ؟ کیوں بچوں سی باتیں کر رہے ہومیر
گامے (ایک افسانہ )۔۔۔۔ کاشفیات تحریر :کاشف علی عبّاس غلام محمد عرف گاما کے دن جوں توں کر کے ہی گزر رہے تھے - غلام کی زندگی میں ناکامی کا جمود جاری و ساری تھا - رہی سہی کسر ظالم دنیا کی جلی کٹی باتیں پوری کر دیتی تھیں ، وہ تو حقارت سے اسے غلام بھی نہیں بلاتے تھے ، کوئی گاما کہتا تھا، کوئی ابے گامے اور کوئی چپڑاسی کی گردان کرتا ، چپڑاسی ادھر آؤ ، یہ کرو وہ کرو .. کہ کر بلاتا تھا -اوروں کی طرح اس نے بھی ایک اچھی پر تعیش زندگی کے سہانے سپنے ضرور دیکھے تھے ، مگر وہ ان سپنوں کی تعبیر کبھی نہ پا سکا - اس کی عمر اب چالیس کے لگ بھگ تھی - وہ ارسا محکمے میں عارضی نائب قاصد (چپڑاسی )بھرتی ہوا تھا اور اب بھی نائب قاصد ہی تھا، کبھی کبھی رشوت خور جونئیر کلرک ، حامد چیمہ ، اگر رخصت پر چلا جاتا تو غلام چند لمحے ڈیسک پر افسروں کی طرح بیٹھنے کی ٹھرک پوری کر لیتا تھا ، مگر وہ ایک دیانت دار, خودار انسان تھا ، اس نے کبھی روپے کی بھی رشوت نہ لی اور نہ ہی کسی سے مدد لی تھی - وہ ایک دھان پان سا مخنی قد و قامت کا معمولی دکھنے والا شخص تھا - ہمیشہ خاکی یا سفید کپڑوں میں ملبوس ہوتا، جو اکثر گندے رہتے تھے - کبھی سالن کے دا
یہ ...آہ ..آہم ...یہ کیا ہے؟بھنڈی گوشتکاش تمھارے گھر والوں نے کچھ تو سکھا کر بھیجا ہوتا ، ہر روز ایک ہی بھنڈی گوشت کھا کھا کر میری شکل بھنڈی جیسی ہو گی ہےمہاراجہ جی، یہ گھر ہے تمھارے ابّے کا ہوٹل نہیں...دیکھو ، تمیز سے بات کرو، مرے خاندان کو بیچ میں مت گھسیٹو!یہ بات تم پر بھی لاگو ہوتی ہے ، زیادہ بچے نہ بنوبچہ تو میں ہوں ... تم سے پورے تین سو دس دن چھوٹا ہوں،افلاطون کہیں کے، صاف صاف کہو کے ١١ مہینے چھوٹا ہوںجو بھی سمجھو، مگر خدا کے لیے یہ بھنڈی گوشت لے جاؤٹھیک ہے تو پھر بھوکے مرو ...میں جا رہی ہوںارے ارے رکو، تو پھر میں کیا نوش فرماؤں گا؟اتنی دیر سے یہ جو میرا بھیجہ نوش فرما رہے ہو، اسی سے پیٹ بھرو ...کتنی ظالم ہو تم؟ جو بھی ہوں، تمہارا مجازی خدا، جان وفا اور پتا نہیں کیا کیا ہوں...ایک کاہل، سست الوجود اور چپکو قسم کے میاں ہو اور تم ایک ...بس بس... قینچی بھی تمہاری زبان کو دیکھ کر شرما جایے ... تم عورتیں بھی چپ ہونے کا نام نہیں لیتیںہاں ہاں اور تم مرد تو جیسے منہ میں گھنگنیاں ڈال کر بیٹھے رہتے ہوتوبہ ہے قسم سے! میں بھوک سے مر رہا ہوں ، جاؤ مرے لیے کوئی کباب بناؤ، کچھ کوفتے ، کوئی پکوڑے ...تو جاؤ دوسر
ڈائجسٹ رائٹرز بمقابلہ مستند اردو ادب رائٹرز کا مقابلہ بنتا ہی نہیں ۔ ایک طرف ہیوی ویٹ اردو ادب رائٹرز ہیں ایک طرف لائٹ ویٹ ڈائجسٹ رائٹرز ۔۔۔ایک طرف اعلیٰ انداز بیاں ، زبان کی چاشنی، اچھوتے مگر حقیقت پسندانہ موضوعات، شاندار کردار نگاری، زبان کا صحیح استعمال ، نت نئی ترکیبات وغیرہ ہیں تو دوسری طرف ان سب چیزوں سے ماورا پاپولر فکشن میں مخصوص طبقہ یعنی خواتین ڈائجسٹ رائٹرز ہیں۔ کیا مرزا ہادی رسوا کے امراو جان ادا کا موازنہ کسی ڈائجسٹ رائٹر کے ناول جیسے (پیر کامل ) عمیرہ احمد سے ادبی تکنیکی فن پر کیا جا سکتا ہے؟ یا یہ موازنہ ہی بے جوڑ ہے ۔ تارڑ کا پیار کا پہلا شہر ہو یا مفتی کا علی پور کا ایلی، اداس نسلیں ہو یا راجہ گدھ کو موجودہ ناولز کے برابر لا سکتے ہیں؟ ۔ منٹو ، پریم چند ، بیدی، کرشن چندر ، غلام عبّاس کے افسانوں کو کیا آج کے لکھے افسانوں کے مقابل لایا جا سکتا ہے ۔میر و غالب و اقبال و فیض کو موجودہ شاعروں کے کلام سے جانچا جا سکتا ہے؟ مزاح میں شفیق الرحمن یا یوسفی یا کرنل محمد خان یا خالد اختر کی شگفتہ تحریر کو آج کل لکھے جانے والے ڈائجسٹ مزاحیہ چیزوں سے پرکھا جا سکتا ہے؟ ادب میں وہی چیز داخل ہو
میں نے یہ مشاہدہ کیا ہے کہ جب کسی سے زبان کی اغلاط اکثر نا دانستہ سرزد ہو جائیں تو چند اردو طلبا نقاد آڑے ہاتھوں لیتے ہیں۔ منٹو صاحب نے اپنے مضامین میں اس چیز کو " کڑوی کوفت" کا نام دیا تو کرنل محمد خان نے بجنگ آمد کو آدم جی ایوارڈ نا ملنے کی وجھہ ایک پختہ نقاد کی زبان کی غلطیوں پر بجنگ آمد کو مسترد کرنا بتائی۔ اصلاح یعنی کسی بھی تحریر کی ادبی اصلاح ایک ادب و قرینہ ملحوظ خاطر رکھ کر ہونی چاہیے مگر ایسا کم دیکھا جاتا ہے اور بڑے حوصلہ شکن قسم کے لٹھ مار انداز میں بے رحمانہ تنقید روا رکھی جاتی ہے ۔ جس کا نتیجہ صاحب تحریر کا لکھنے سے مکمل دست برداری کی صورت میں نکلتا ہے ۔یہ سرا سر غلط رویہ ہے ۔ متوازن تنقید کے ساتھ کچھ حقیقی تعریف بھی شامل ہو تو سب ٹھیک ٹھیک سمجھا جائے گا ۔ میرا اپنا سامنا ایسے ہی نقاد سے جب پڑا تو میں نے اینٹ کا جواب پتھر سے نہیں دیا بلکہ توپ کے گولوں کی صورت میں جوابی تابڑ توڑ حملے کر دیۓ ۔وہ بیچارہ نقاد آج بھی زخم چاٹتا ہے ۔مگر یہ پرانی بات ہے اب میرا طریقہ بلکل مختلف ہوتا ہے ۔ یعنی تبصرے کو اسکین کرتا ہوں کہ آیا اس میں کوئی کام کی بات ہے یا نہیں اور اگر ہو تو اس کو سنجیدہ لے کر اپ
چلیں آج صرف اور صرف سچ بولنے کا پکا اور مصمم ارادہ کر کے سچ بولیں ۔خود سے بھی اور اگلوں سے بھی ۔تو اگر آپ اپنے ہر مسلۓ کا دائمی اور یقینی آسان حل چاہتے ہیں تو صرف یہی ایک کام کریں ۔سچ بولیں ۔۔۔پھر آپ کو نا کسی سیلف ہیلپ کی ضرورت ہو گی نا ہی کسی کونسلنگ کی حاجت باقی رہے گی ۔سچ ایک ونر ہے ۔کیسے ؟ سچ فارمولا ہر پرابلم پر اپلائی کریں ۔اگر آپ کا کیرئیر نہیں بنا یا محبت ناکام ہو گیئی یا صحت ایشو ہے ، اگر آپ کو ذہنی سکون نہیں، کوئی بھی مسلہ ہے اس پر ایک مرتبہ سچ کھول کر پھرول کر اپنی غلطی دیکھیں ۔اپنے جج خود بن کر دیکھیں ۔تو محبت میں ناکامی کی وجہہ سمجھ آ جاۓ گی ۔شاید آپ کو اس بندی یا بندے سے محبت ہے ہی نہیں ۔یہ بس ایک تمنا ہے ۔اور اگر محبت ہے تو زندگی جیسی قیمتی شے ایک جذباتی ہیجان انگیز جذبے میں لگا دینا کہاں کی دانش مندی ہے ؟ میں کبھی محبت میں کسی کے آگے نہیں بچھا ۔جب کبھی رومانوی شاعری کرتا ہوں تو وہ صرف شاعری کی حد تک ہے ۔میری انا مونٹ ایورسٹ سے بھی اونچی ہے ۔جسے آپ سے سچی محبت ہوتی ہے وہ آپ کی انا کو کبھی ٹھیس نہیں پہنچا سکتی یا سکتا ۔باقی جو آپ کی تذلیل کی کوشش کرے تو کنارہ کشی بہترین عمل ہے ۔بھاڑ میں جا
1- بغیر جان پہچان کے کسی واٹس ایپ نمبر پر بار بار آدھی رات کو ویڈیو کال کریں ۔یقین کامل رکھیں کہ بلاک ہو جاؤ گے 2- کسی تازہ تازہ بنے دوست سے مسلسل ادھار کا تقاضا کریں ۔پیسے واپس کرنے کے بارے میں شکوک کا اظہار کریں ۔اسے یہ کہیں کہ " یار اب تجھ سے ہی امید ہے " بلاک ہو جاؤ گے ۔3- کسی گرل فرینڈ سے جو کنجوس ہو موبائل لوڈ یا منتھلی پیکج کروانے کا کہو ۔یہ سوال اگر اس کی انسٹا فلٹر لگا کر سلفی کی بے عزتی کے بعد کیا جاۓ تو بلاکنگ یقینی ہے ۔4- انسٹا یا واٹس ایپ یا فیس بک پر rude کمنٹس پاس کریں ۔اور ساتھ ہی اپنی غربت کا اعلان کریں ۔خود کو عقل کل ڈکلئیر کر دو ۔بلاک ہو جاؤ گے ۔5- بلاک ہونے کا سب سے آسان طریقہ ہے کہ کسی سے سچا عشق کریں ۔لازمی بلاک کر دے گی ۔۔۔۔تحریر : کاشف علی عبّاس
پیارے عمران خان یکایک 5 سال کے لئے نا اہل ہو چکے ہیں وہ بھی صرف اس بات پر کہ انہوں نے وصول شدہ تحائف خرید لئے اور اچھی پرائس پر مارکیٹ میں بیچ دیۓ ۔اس معصومانہ سی تجارت کی اتنی سخت سزا ۔یار لوگ کہتے ہیں کہ ایک منتخب وزیر اعظم کو یہ زیب نہیں دیتا ۔اب تحریک انصاف نے لاہور ہائی کورٹ میں فیصلہ چیلنج کرنے کا عندیہ تو دے دیا ہے مگر justice کہاں ہے صاحب ؟ مجھ کو حیرت ہے کہ اب پاکستان میں ہم تجارت بھی نہیں کر سکتے ۔۔۔۔حد ہے !ہاۓ ہاۓ نیازی ۔۔۔یہ لوگ اور کتنے ظلم کریں گے ۔۔۔جب مقابلہ نہیں کر سکتے تو نا اہل کروا دو ۔ دل رو رہا ہے ۔۔۔خشک آنسو ہیں کہ رک نہیں رہے ۔ ابھی آپ لانگ شارٹ سب مارچ فروری جنوری کر کے دھڑن تختہ کر دو ۔۔۔کیا ہوا جو ملکی معشیت سنبهل رہی ہے اور پاکستان گرے لسٹ سے باہر آ چکا ہے ۔۔اتنا ظلم کہ گھڑی تک ایک کروڑ کی نہیں بیچ سکتے ۔۔۔ستم کی حد ہی کر دی ہے ۔۔۔آپ کال دو ہم جوابی مس کال ضرور کریں گے ۔۔انشاء اللّه !!!تحریر : کاشف علی عبّاس
کیسے ہو ؟ کہاں ہو ؟ نظر نہیں آ رہے آج کل زندہ ہوں ۔ گم سم ہوں ۔وہاں جہاں سے خبر نہیں آتی ۔خبر نا کراؤ مگر یہ تو بتاؤ کہ ہوا کیا ؟دماغ خراب ہوا ہے ۔یار حد ہے کہ بندہ چند دنوں کے لئے خود کو Detox بھی نہیں کر سکتا ۔مجہے کسی سے بات نہیں کرنی ۔ مجھے تنہا چھوڑ دو ۔ارے ارے کہیں خود کشی کا ارادہ تو نہیں ؟ اور یہ کسی میں ہمیں عاشق با مراد کو نا شامل کرو جی ۔ہم تو آ پ کے خاص ہیں ۔توبہ ہے،میں حرام موت کیوں مروں ؟ اور تم سیلف پبلشد عاشق ہو ۔سچے یا مستند نہیں ۔جاؤ منه دھو رکھو ۔ابھی لکس صابون سے دھویا ہے ۔اپنے عاشق کو خبر نا کرانا گھور پاپ ہے کنیا ۔ خبر کرا دے ۔او ہیلو ۔ذرا تمیز سے ۔سچی مچی خبر کرا دی نا تو تمھارے طوطے اڑ جائیں گے ۔چودہ طبق روشن ہو جائیں گے ۔Just Chill baby just chill ۔۔۔بی پی شوگر وغیرہ ہائی فائی نا کرو ۔میری جان کے ٹوٹے ۔۔۔ٹوٹے تو ابھی تیرے ہونے والے ہیں ۔رک ذرا ۔۔۔اوہ نو ۔۔۔مغرب کی نماز کا وقت ہو رہا ہے میں ذرا خدا سے تمھیں مانگنے چلا ۔میں نے کہا رک ۔۔۔آج ساری عاشقی کا بھوت اتار دوں ۔ادھر تو آ ۔کدھر بھاگ رہا ہے ؟ اوکے بے بی پھر ملیں گے خبر ضرور کرا دینا ۔پاگل ۔۔۔اسٹوپڈ
کالا جادو کی چند اہم علامات یہ ہیں 1- پاؤں پر یا جسم پر ایک یا ایک سے زیادہ عجیب بڑا کالا تل ہونا اور ہاتھ میں مریخ منفی کا ابھار پست ہونا ہے 2- ہاتھ کی لکیروں کا لمحہ لمحہ ظاہر اور غائب ہونا یعنی کبھی لکیریں نظر آتی ہیں کبھی نہیں 3- ڈراؤنے خواب آنا، گھر یا باہر سانپ نظر آنا ، اور خواب میں اکثر سانپوں کا ڈس لینا 4- خون کے چھینٹے ہر جگہ گرنا یا خون کے دھبے نظر آنا اس کے علاوہ چند خاص علامات ہیں جن کا یہاں ذکر مناسب نہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ 2000 کی بات تھی جب ایک معتبر عامل نے مجہے کہا کہ آپ پر فلاں فلاں کام میں رکاوٹ اور فلاں بندے کی طرف سے سحر یا جادو کیا گیا ہے۔تو یہ سن کر مجہے بیحد خوشی ہوئی یعنی کہ یہ میری اہمیت تھی کہ لوگ جلتے تھے ۔اس عامل نے پینے کو دم والا پانی دیا اور تعویز بھی ۔۔۔پانی میں نے فلش میں بہا دیا اور والد صاحب قبلہ جو ساتھ تھے سے نظر بچا کر تعویز بھی سڑک پر چپکے سے پھینک دیا اور خوب جادو وادو کا مذاق اڑاتا رہا یہاں تک کہ اس منحوس عامل نے جو کچھ کہا تھا انہی کاموں میں رکاوٹیں آتی رہیں ملازمت شادی وغیرہ ۔۔۔تو تب میں نے اس کالا جادو پر کتابیں کھنگالیں اور اس کو سمجھ
کیا عشق کا کوئی علاج ہے ؟کوئی کام شام کریں اور خود کو بزی رکھیں فارغ دماغ عشق کا گھر ہوتا ہے کیا وہ میرے عشق میں پاگل ہو سکتی ہے؟بلکل جیسے آپ کوئی ایجاد کر سکتے ہیں ؟شادی کی صحیح عمر ؟تا عمر ۔موت سے ڈر لگتا ہے مگر کیوں ؟آپ زندگی سے ڈرنا شروع کر دو ۔ موت خوبصورت لگے گی ۔کیا ہاتھ دکھانا چاہے ۔ نمازیں باطل ہوتی ہیں ؟میں نے کم و بیش 5000 ہاتھ تو دیکھے اور Reading کی ہو گی ۔لکیریں پڑھی ہوں گی تو لاکھوں نمازیں آف ؟ ارے سب ڈھکوسلا ہے ۔ chillدولت کمانے کے لئے کیا کریں ؟محنت ۔۔۔۔محنت ۔۔۔۔محنتزندگی کا مقصد ؟اس بے مقصد سوال کا مقصد ؟ہر بار مجھ کو ہی دھوکہ کیوں ہوتا ہے ؟آپ ہیں ہی روتو اور اسی قابل ہیں ۔میں نیکی اور بھلائی کرنا چاہتا ہوں خود نیک بن جا تحریر کاشف علی عبّاس
یہ چیز سمجھ لیں کہ اگر محبوبہ بیوی ہے تو چھٹکارا پانا اتنا مشکل ہے جیسے کالا باغ ڈیم بننا یا کشمیر آزاد ہونا ہے۔کیوں کہ ہر دو معاملات میں کوشش بڑی ہوتی ہے مگر نتیجہ صفر ہی آتا ہے ۔اس میں کچھ اہم پہلو بھی ہیں یعنی بریانی مسالھے کی طرح چٹخارے دار چیزیں ۔پھر بھی تگ و دو تو کی جا سکتی ہے نا حق مہر : اگر آپ نے جق مہر زیادہ لکھوا لیا شرارتی بزرگوں کے مشورے پر ، اور وہ بھی غیر معجل تو آپ تو پکے پکے مارے گئے ۔۔۔شادی کی تاریک راہوں میں مارے گئے تو اب انعام کے طور پر اپنی بیوی پر ہی تا عمر قید پر اکتفا کریں اور فی الفور یہ تحریر مت پڑھیں ۔آپ کا ککھ نہیں ہو سکتا ۔ڈاکٹر یا حکیم جب کسی نیم مرد کو جواب دیتے ہیں تو کہتے ہیں نماز شماز پڑھو ، بکرے کا گوشت منڈ کر کھاؤ، (مسکرا کر) پرہیز لازمی کرنا ۔۔۔اگر پھر بھی کام نہیں بنتا تو ہماری طرف سے جواب ہے آپ لاعلاج ہو۔ اسی طرح آپ بھی فارغ ہو اگر اتنا حق مہر لکھوا لیا ہے ۔جیسے اگر آپ کی تنخوا ہ پچاس ہزار مہینہ اور حق مہر 5 لاکھ لکھوا بیٹھے ہو تو جا کر خود کشی کر لو ۔ اس جینے سے موت بہتر ۔ حق مہر ہمیشہ موقع پر ادا ہو اور پانچ یا دس ہزار ہونا چاہیے ۔شادی شرائط سے نہیں م
【اپنی】 【محبوبہ(】 【جو】 【آپ】 【کو】 【غلام】 【سمجھے】 【)】 【سے】 【جان】 【چھڑانے】 【کا】 【آزمودہ】 【اور】 【سو】 【فیصد】 【گارنٹی】 【والا】 【طریقہ】 ۔۔۔۔*سب سے پہلے اس کی Insta سٹوری دیکھنا چھوڑ دیں * اسے Facebook ,insta whatsapp یعنی ہر سوشل میدان سے کک کر دیں unfollow یا بلاک کر دیں ۔* اب وہ سم یعنی فون پر کوشش کرے گی تو یہاں سے بھی دروازے کا راستہ دکھا دیں ۔ * پھر Unknown Acoounts سے آپ کو میسجز آنے لگے گے تو ایک قنوطی بن کر نظر انداز کر دیں * نئی محبوبہ تلاش کریں کیوں کہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں وغیرہ وغیرہ * یقین کریں آپ کی خودی بلند ہو جاۓ گی اور اقبال کا فلسفہ خودی بھی خود ہی سمجھ جاؤ گے ۔ یہ مشورہ مفت سخن ہے اور اس کی قیمت بس یہ ہے کے عمل کرنے والے پر میرا احسان رہے تحریر : کاشف علی عبّاس
وحید مراد ، ممتاز مفتی اور آہو چشم راگنی از مستنصر حسین تارڑ تو جب کبھی فردوس مارکیٹ کے نواح میں واقع قبرستان میں اپنے والدین اور چھوٹے بھائی زبیر کی قبر پر فاتحہ پڑھنے جاتا ہوں تو قریب ہی عوامی اداکار علاؤالدین کا مدفن ہے اور اس پر کوئی پھول نہیں چڑھاتا، قبرستان کے کونے میں وحید مراد کی قبر ہے…اور اس کی رہائش بھی اس قبرستان کے ساتھ ہی تھی… مجھے یاد ہے کہ جب میں نے اس کے جنازے کو کندھا دیا تو وہ چارپائی شکستہ تھی جس میں اس کا جسد خاکی لپٹا پڑا تھا۔وہ پاکستانی فلمی دنیا کا سب سے بڑا سپرسٹار تھا جسکے ساتھ عوام نے اور خاص طورپر نوجوان نسل نے ٹوٹ کر محبت کی…شاید آج کا شاہ رخ خان بھی اس سے بڑھ کر پسندیدگی کے جنون سے دوچار نہیں ہوسکا… اس کا ہیئرسٹائل دلیپ کمار کے بعد ایک فیشن کی صورت اختیار کرگیا پچھلے برس ہالینڈ میں ایک ایسے پاکستانی سے ملاقات ہوئی جو ہیئر سٹائل کے علاوہ وحید مراد کے انداز ابھی تک اپنائے ہوئے تھا کہ جن زمانوں میں وہ پاکستان سے یورپ کی جانب گیا ان دنوں یہاں وحید مراد کاراج تھا… اس کا لباس اسکے ذوق جمال کی گواہی دیتااور جس طور وہ کسی گانے کی فلم بندی لاپروہ انداز میں کرتا تھا، کسی اور ہیرو کے ن
ہیلو کیسے ہو ؟ہاۓ ۔جی ٹھیک ہوں آپ کیسے ہو ؟ میں بھی بھلا چنگا ہوں ۔ وہ آپ کی ۔۔وہ جو شادی ۔۔۔ہاں ہاں ۔ شادی نہیں ہو سکی ارے کیوں جی ؟ کیا ہوا ؟یار او کہندی ہے ۔ساری دعا آپ کرو ۔ساری محنت آپ کرو ۔میں بس wait کروں گی ۔یہ کیا بات ہوئی بھلا ؟ بس یار ۔ بنا بنایا حلوہ نوش کرنا ہے انھیں ۔بھئی جب شادی دو لوگوں کی محنت ہوتی ہے تو دعا اور ساری effort ایک پارٹی کیوں کرے ؟ یہ بیل منڈھے کیسے چڑھے ۔ہاں صحیح کہتے ہو ۔بیل سے یاد آیا عید پر کیا لو گے اس بار صرف گوشت لیں گے اور گوشت دینے والوں کو دعائیں دیں گے خوب خوب اچھا اجازت مجھے کچھ وظیفہ جاپنا ہے ٹھیک ہے جانو ببس سب کچھ وظیفے پر نا چھوڑ دینا کچھ ہاتھ پاؤں خود بھی مارنا ورنہ میری طرح رہ جاؤ گے ۔ہاں ہاں ضرور ۔اوکے بائے ٹا ٹا تحریر : K
جانے علی مانے مومن ناد علی |
مشکل کشا شیر خدا شان علی |
وہی ناطق وہی کاظم وہی حالم |
ید اللّه اسد اللّه وہی لا فتح الا علی |
امیر المومنین ولی اللّه شہید اول |
مولود کعبہ شہید مسجد محافظ دیں علی |
میرا خدا سے ایک سوال ہے ؟یہ جو دو منظر ہیں جو رنگ بدلتے ہیں ۔۔۔ایک دوزخ جیسی گرمی میں تپتا وہ موچی ہے جو پسینے میں شرابور لکشمی چوک لاہور میں اور لو اور حدت میں میری جوتی گانٹھتا ہے ۔اور مجھ سے صرف بیس روپے کا تقاضا کرتا ہے ۔ اور پسینہ پونچھتا خوش اور آسودہ دکھتا ہے ۔ایک منظر ہے لکشمی چوک طباق کے خنک آمیز ٹھنڈے ٹھار ماحول میں سجی میز پر دیگی چرغا میری بھوک میں اضافہ کرتا ہے ۔اس جنت جیسے یخ ماحول میں لوگ سردی سے ٹھٹر رہے ہیں ۔اور میں مری جیسی سردی میں لزیز مگر مہنگا کھانا نوش جان کر رہا ہوں۔۔ مگر چند فٹ دور،شیشے کےدروازے کے اس پار،جھلسا دینے والی گرمی میں وہی موچی بیٹھا ہے ۔اور ادھر چند فٹ دور شیشے کے دروازے کے اس طرف ، یخ آلود موسم میں بمعہ راحت میں بیٹھا ہوں ۔تو میرا خدا سے سوال ہے کہ ایسا کیوں ہے ؟ یہ تفریق کیوں ہے ؟تحریر : کاشف علی عبّاس
تیرے چلے جانے کا خلا اب کبھی پورا نہ ہو پاۓ گا من کو چیرتی یادیں رہ جایئں گی تیری تصویر دیکھ کر آنکھیں بھر آیئں گی تیری گمشدہ شفقت بہت رلاۓ گی وہ زندہ دلی اب کدھر نظر آۓ گی ؟ان بدگمانیوں پر افسوس رہ جاۓ گا ان کہی باتوں کو کون کہلواۓ گا ؟اب بھی کبھی اگر پاؤں پھسل جاتے ہیں بے ساختہ تیرے کلمات یاد آتے ہیں تم نے راہبر بن کر ، چراغ راہ بن کر دکھایا زندگی کا راستہ بادشاہ بن کر اس دل کو ڈھارس نہیں، کوئی جنون نہیں کدھر چلے گیے ہو ؟ اب کوئی سکون نہیں بس اک امید ہے کہ بہتر زمانہ پایا تم نے عارضی دنیا کو چھوڑ جنت ٹھکانہ پایا تم نے اب وہاں کوئی کلفت غم نہ ہو گی، وبال نہ ہوں گے مصائب درہم برہم نہیں، دنیاوی جنجال نہ ہوں گے مگر دل مضطر کو پھر قرار ملتا نہیں یاد آتے ہو بے پناہ ، فرار ملتا نہیں یہ لوگ جھوٹے دوغلے مکار ۔۔۔سب لے اڑے کوئی تہمت لگانے لگا کسی کو قربت قرابت یاد آ گیئی کوئی دشنام اندازی پر اتر آیا کسی نے آپ کی ذات کو میزان بنا دیا ان کی چالاکیوں جھوٹ عیاریوں کو جانتے ہوۓ بھ
میری آل ٹائم ٹاپ لسٹ آف ادبی ناولسٹ /مصنفین یہ ہے ۔١- نمرہ احمد میں نے نمرہ کے چند ناولز پر ( مصحف ، گمان ، حد ، جنت کے پتے ) تیز مرچوں والی کھٹی میٹھی تنقید متشرع مصالحے کی طرح چھڑکی ۔ تو ساتھ ساتھ ( بیلی راجپوتان کی ملکہ ، قراقرم کا تاج محل ، پہاڑی کا قیدی ) پر تعریف و توصیف کے ڈونگرے برساۓ ۔ تنقید کا نمک اور تعریف کی شیرینی ایسے ہے جیسے نمکین چاولوں کے ساتھ میٹھا زردہ مزے لے لے کر کھایا جاتا ہے ۔وہ نمبر ون اس لئے ہے کہ اس کے ہر ناول کا موضوع مختلف ہے ۔جدت بھی ہے ندرت بھی اور لکھنے کی قدرت بھی ۔ریڈر کیسے بچے ؟ آج کی رات بچیں گے تو سحر دیکھیں گے ۔تو کیا دیکھیں گے ۔جہاں ایک طرف نمرہ نے ایک bumpy یا اوبر کھابڑ قسم کا طویل نا ہموار ادبی سفر طے کیا ہے ۔جس میں ناکامی و کامیابی باہم ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔اور چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر آہستہ آہستہ ۔تو آہستہ ہی سہی ان کی تحریر میں نکھار آتا رہا ۔دوسری طرف ابھی بھی بہتری کی گنجائش موجود ہے ۔ادبی چمار خانوں کے اہل زبان ( ایم -اردو یا پی ایچ ڈی طلبہ و طالبات ) سے میری اکثر لارنس گارڈن میں اس بات پر بحث ہو جاتی تھی اور اب بھی قائد اعظم لائبرری ( جہاں ر
اک عرصہ پہلے، صدیوں پہلے، کتنی مدت قبل ، وقت کی قید سے پرے ۔۔۔زمان و مکان سے آگے ۔۔۔اس نے پہلی بار بڑے لاڈ سے اور محبت سے کہا تھا ۔میرے اظہار محبت کے جواب میں کہا تھا ۔۔۔بے اختیار اس خاص لمحے میں کہا تھا ۔ |
" اگر کبھی مجہے زندگی میں تمہاری ضرورت پڑی تو تمھیں یاد کر لوں گی ۔تمھیں اس دن بلاؤں گی ۔۔تو دروازہ کھلا رکھنا " |
میرے دل کا دروازہ تب سے روز ازل تا ابد تک اس کے لئے کھل چکا ہے ۔آج بھی کھلا ہے مگر شاید تلخ زمانہ اور زیست کی الجھنوں میں وہ بھول چکی ہے ۔مگر میرا دروازہ آج بھی کھلا ہے اور میں نہیں بُھولا اور میں نہیں بھولتا ۔ |
(کاشف ) |
Like and Share my page on FacebookPart 1 (پہلی قسط ۔ یہ ٢٠١٢ میں شرو ع کیا تھا مصروفیت کو وجہہ سے اب جا کر مکمل ہوا ہے ۔)وہ اکیلی بیٹھی تھی اور رات کافی گہری ہو چکی تھی ... ایک شب سیاہ جیسی ناگن زلف تھر تھرا کر تاریک لبادے میں ملبوس کالی رات کا حصہ بن چکی تھی - وہ پر فسوں نیلی آنکھیں ، جن کی گہرائی حسن کا کوئی آلہ نہ ماپ سکے ، ایسی نیلو نیل شاندار بناوٹ والے نین اس کے تھے- جیسے تنہا اور ویرانے میں ایک حسین شوخ گل کھلا ہو جو اپنے نور سے اس تنہائی کو آباد کر دے؛ اس کی آنکھیں ایسے ہی دو پھول تھیں جو وجود چمن میں بہار حسن کی موجودگی کی دو روشن نشانیاں تھیں - وہ دراز کالے بال جن کی چمک اور لشک ناقابل بیان تھی، بل کھاتے خوبصورت بال، جنھیں ایک ادا سے وہ جھٹکتی تھی - ایک سپیدہ سحر سا ہالہ اس کے کتابی چہرے کے گرد طواف سا کر تا تھا - جیسے کوئی شاخ سبز اپنے وجود سے نمو پانے والی ایک چٹختی کلی کو مزید نکھار دیتی ہے ،جلا بخش دیتی ہے تو ایسے ہی سراپا سیاہ میں وہ سفید و سرخ چہرہ ایک خوشگوار تاثر چھوڑتا تھا ، جوانی کی تمازت سے بھرپور چہرہ جو چہروں میں خاص تھا، چند لمحے پیشتر وہ اس جن
نوٹ : کمزور دل حضرات اس کو ہرگز ہرگز نہ پڑھیں، اور مضبوط دل افراد بھی رات کو پڑھنے سے گریز کریں ...شکریہ ...منجانب مصنف یہ ایک سچا واقعہ ہے، عام طور پر کسی آپ بیتی یا قصّے کو محض زیب داستان کے لیے ، مزید سنسنی خیز بنانے کے لیے یہ فقرہ کہا جاتا ہے ، مگر اس واقیۓ کے مندرجات بلا کم و کاست بیان کر دیے گیے ہیں ... میں بلواسطہ طور پر اس کا چشمدید گواہ ہوں، بات چند مہینے پیشتر کی ہے جب مرے قریبی دوست ، شہاب احمد کو ٹیو شن کی ضرورت پڑھی... میں ان دنوں ایک سرکاری یو نیورسٹی میں لیکچرر کے فرائض سرانجام دے رہا تھا ، تو جب اس نے مجھ سے نکر کیا، تو مجھے وہ سرخ رنگت بالوں اور گہری کالی آنکھوں والی لڑکی یاد آی، جس نے کچھ عرصہ پہلے مجھ سے ٹیو ٹر لگوانے کی بات کی تھی، یو نیورسٹی میں روز ہی تقریباً سینکڑوں ایسے لوگ ملتے ہیں ، جو آپ کی مدد چاہتے ہیں ... مگر وہ لڑکی مرے ذھن کے کسی خانے میں بیٹھ گیئ تھی، جس کی وجہہ میں خود نہیں جانتا ... بس یہ تھا کے میری چھٹی حس کچھ زیادہ ہی تیز تھی، کچھ تو گڑ بڑ تھی، مگر میں ادارک نہ کر سکا، اور یہ تو بہت بعد میں کھلا...تب تک بہت دیر ہو چکی تھی... اس لڑکی کا نا
عرض یہ ہے مجھ پر اچا نک حملہ ہو گیا ہے ۔ یکایک چاروں طرف سے بھیانک اور خوفناک ٹرولرز اور خطرناک میمرز نے مجھ پر سوشل یلغار کر دی ہے ۔میرے انباکس پر چڑ ہائی کر دی ہے ۔تنقیدی پیغامات کا تانتا بندھ گیا ہے ۔جیسے یہ کیا ہے جی ؟ یہ کیوں ہے جی ؟ مریں ہمارے دشمن ہم کیوں مریں ۔تم مرو ۔۔۔وجھہ صرف یہ تھی کہ میری پچھلی تحریر کا عنوان تھا * کمال کی پانچ کتابیں جو مرنے سے پہلے پڑ ھیں * تو شاید انھیں مرنے سے ڈر لگتا ہے یا شاید جہنم کا خوف ہے تو بہرحال اب اس نئی لسٹ کا عنوان ہے "وہ پانچ کتابیں جو آپ جنت جانے سے پہلے پڑھ لیں " اب خوش ہو رذیل ٹرولرز ؟ ہاں ہاں خوش ہی ہوں گے ۔تو پہلی کتاب ہے علی پور کا ایلی اور جھونگے میں "لبیک " بھی شامل ہے ۔ممتاز مفتی جیسا کوئی نہیں لکھ سکتا ۔ شہزاد کا کردار ایک رنگین دلنشیں ادبی معرکہ ہے ۔ مرزا رسوا کی امراؤ جان ادا اور ڈپٹی نظیر احمد کی اکبری اصغری سے کسی طور کم نہیں۔ منشی پریم چند کے افسانوں اور خاص طور پر ان کے شہرہ آفاق ناول *شطرنج * میں جو ٹکسالی قسم کا انداز بیان ہے اسی میں تھوڑا سا منٹو اور کرشن چندر کا مکسچر ہو تو نتیجہ علی پور کا ایلی اور ٹین کا آدمی
١۔ جنگ اور امن ( ٹالسٹائی ) اس کتاب کا سحر آج بھی مجھ پر روز اول یعنی دس سال سے طاری ہے ?۔پرنس نکولائی پسندیدہ کردار اور نفسیاتی پرت جو ٹالسٹائی نے لا تعداد کردار لکھ کر بنا دی ہے وہ بھی کمال ہے ۔ میں روسی نہیں جانتا تو انگریزی اور اردو ادب کا ورزن پڑھا ۔ ہر صفحے پر ایک نیا کردار ملتا ہے ۔امن کی حالت میں جنگ کا خوف ایک اچھوتی تخلیقی کاوش ہے ۔2- (کاونٹ آف مانٹی کرسٹو ) جو ڈوما نے لکھا ہے ۔ہسپانوی ادب میں ایک ڈان کے خھوتے ( اسے کھوتے نا پڑھا جائیے ) اپنے مریل گدھے پر مہم جوئی کو نکلتا ہے تو دوسری طرف ڈوما اور تھری مسکیٹرز اور کاونٹ ہے ۔ اس ناول میں ایک شریف بھولے سے بندے کو دھوکہ دہی سے ایک جرم میں پھنسا دیا جاتا ہے ۔ نپولین بذات خود اس سازش میں شامل ہے ۔قید خانہ ایک جزیرے پر ہے جسے chaitu'if کہا جاتا ہے ۔وہاں اس پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں ۔آخر وہاں اسے ایک استاد ملتا ہے ۔جو اسے خزانے کا پتا دیتا ہے (نقشہ )اور یہ بھولا بندہ وہاں سے بھاگ کر خزانہ تلاش کر کے ایک فیک پہچان یعنی کاؤنٹ بن کر واپس آتا ہے اور اپنا انتقام اپنی محبوبہ اور بہترین دوست اور ایک جج سے لیتا ہے ۔ اعلیٰ ناول اور شاندار تحری
دعا زہرہ کیس میں حقیقت کیا ہے ؟اس وقت ( جب یہ تحریر لکھی جارہی ہے ) ٹاپ ٹرینڈز میں پٹرول ، ڈالر ، امپورٹڈ حکومت اور دعا زہرا کیس شامل ہیں ۔ٹائم لائن ایسے ہے 1- سب سے پہلے یہ کہا گیا کہ اس کو اغوا کیا ہے گینگ ہے پورا اور نکاح جعلی ہے اسے نشہ آور انجیکشن لگے ہیں تو اسے بلیک میل کیا جا رہا ہے 2- پھر مس دعا بازیاب ہو جاتی ہے عدالت میں پیش ہو کر اپنا بیان رکارڈ کرواتی ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے اور بھاگ کر کی ہے اور وہ اغوا نہیں ہوئی ۔جج کے پاس شریعت اور قانون کے تحت یہی آپشن تھا کہ دعا زہرا کے حق میں فیصلہ دے تو اس نے یہی کیا ۔3- اب تصویر کا دوسرا رخ اس کے وا لدین ہیں جو کہ رہے ہیں کہ دعا کی عمر کم ہے یا وہ تو گھر جانا چاہتی ہے ۔اور جب دعا اور اس کے مبینہ طور پر شوہر زھیر کی پارٹی ویڈیوز آتی ہیں تو اس کے پیرنٹس اس کو بھی گینگ کی نظر کر دیتے ہیں ۔ وہ مختلف جگہوں per احتجاج کرتے نظر آ رہے ہیں خدا معلوم کس چیز پر۔ پوری عوام اپنا قیمتی وقت ٹرولنگ میں برباد کر رہی ہے اور کچھ لوگ دعا کے حق میں ہیں اور کچھ ان کے والد کے حق میں بول رہے ہیں۔میں اس صورتحال کو صرف ایک جملے سے کور کرتا ہوں " جب میں م
لاہور لاہور ہے ...قسط نمبر دو تبصرہ آن لاہور آوارگی ۔مستنصر حسین تارڑچشم براہ ہوں معذرت خواہ کہ جب تارڑ اپنے حواریوں (جن کا تعارف بعد میں ) کے ہمراہ قدیم لاہور کی گلیوں ، کوچوں میں عہد رفتہ کو یاد کرنے اور یاد ماضی کو تازہ کرتے گزرتے ہیں - تو قاری ساتھ ساتھ سفر کرتا ہے -وہ نیم پخت سوٹا لگاتے ہیں اور کش کا مزہ مجھے آتا ہے - پھجے کے پاۓ وہ نوش جان کرتے ہیں اور لذت تراہٹ کے رسیلے چشمے یہاں میری زبان پر پھوٹتے ہیں - لسی کو ایک ڈیک میں وہ ختم کرتے ہیں اور سفید جھاگ سی بانچھیں میں یہاں محسوس کرتا ہوں - حلوہ پوڑی ادھر کھائی جاتی ہے اور خمار پوڑی یہاں چڑھتا ہے - یعنی لازم و ملزوم ہیں قاری و تارڑ اور یہی انداز بیان تارڑ کا سب سے شاندار ادبی امتزاجی حسن ہے -لاہور کے قدیمی کوہے ہوں، تارڑ سا ادبی جادوگر بیان کر رہا ہو، تو حشر ہے ، سامان غدر ہے - ان کوچوں، محلوں اور گلیوں میں کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنا کی طرح حویلی نونہال سنگھ کی شان و شوکت کا تذکرہ کرتے ہیں - ابھی کھڑک سنگھ کی حویلی بھی منتظر نگاہ ہے - اگرچہ سکھوں کے دور کی حویلیاں آج بھی لائق تماشا خاص ہیں مگر
پچھلی لسٹ کے بعد کچھ میسجز ملے کہ فلاں کا نام نہیں تو اس کا نام نہیں ۔ تو بھائی یہ میری لسٹ ہے کوئی حرف آخر نہیں ہے آپ کو جو پسند ہے اس کو نمبر ون رکھیں اور اپنی لسٹ جاری کریں کوئی محنت بھی کریں troll پر ہی زندگی ختم نہیں ہوتی۔ تو لسٹ نمبر ٢ یہ ہے ١- نمرہ احمد : قراقرم کا تاج محل پہلا مقبول ناول ۔پھر مصحف ، جنت کے پتے ہٹ ہوۓ ۔ پھر نمل اور حا لم میرے نزدیک ایورج تھے ۔جو قلم کی کاٹ مصحف اور جنت کے پتے میں تھی وہ باقی بعد والے ناولز میں نظر نہیں آتی ۔چارلس ڈکنز کی طرح نمرہ کی خاصیت ان کے non - flat characters ہیں یعنی کچھ بھی کبھی بھی ہو سکتا ہے ۔ سسپنس اور ہلکی سی نوک جھوک والی رومانوی چھینٹ بھی ان کا خاصہ ہے ۔مجھے ان میں اور شارلٹ برانتے (jane eyre ) میں کافی مماثلت محسوس ہوتی ہے ۔ مذہبی حوالے سے بھی نسیم حجازی اور عمیرہ کے بعد یہ نمرہ ہی ہیں جنہوں نے audiance کو کیپچر کیا ہے اس میں یہ چیز قابل ذکر ہے کہ میں مذہب اور رومانس فیکشن کے اختلاط کو صحیح نہیں سمجھتا اور آج بھی اس موقف پر قائم ہوں اور اس کا سخت ناقد بھی رہاہوں کیوں کہ جو انداز نسیم حجازی کا تھا ویسا انداز بیان اور caliber بہت
یہ فیس بک ٹرولرز کون ہوتے ہیں ؟ بڑے حرامی ہوتے ہیں ۔ ان کا کیا کام ہوتا ہے ؟ کتا کام ہوتا ہے ۔ یہ لوگ ہر پیج کی ہر پوسٹ پر منفی یا گھٹیا یا سرے سے ہٹ کر کمنٹس کرتے ہیں ۔ ان کو میں جراثیم سے بھی کم سمجھتا ہوں ۔ان کا جراثیم کش علاج ہے ۔ Ban and Delete ہی ان کا اصل علاج ہے ۔ میں نے اب تک اپنے پیجز اور گروپس سے کوئی لاکھوں ٹرولرز کو ایسے کھڈیہڑ کر رکھا ہے کہ چس آ چکی ہے ۔ منفی لوگوں سے یا جاہل سے کبھی بحث نا کریں ۔ فیس بک پر ان کمینوں کو تو سیدھا بلاک یا بین کریں اور اصل زندگی میں اس محفل سے اٹھ جائیں یا ان کو دور سے ہی سلام کریں ۔ شکریہ
میری دانست میں فی زمانہ یہ پاکستان کے پانچ سب سے بہترین لکھاری ہیں۔١۔ مستنصر حسین تارڑ المعروف چا چا جی پورا پاکستان بشمول مجھ نا چیز کے ان پر فدا ہے ۔ ان کی بزلہ سنج شخصیت ، اچھوتے سفر نامے اور شاندار گفتگو کا کون مداح نہیں۔ان کا رومانوی ناول " پیار کا پہلا شہر " ایک لیجنڈ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے ۔پچھلے پچاس سال سے یہ پاکستان کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے بیسٹ سیلر ادیب ہیں ۔میں نے ٢٠٠٩ میں ان پر فیس بک پر پہلا پیج بنایا جس پر آج 85 ہزار لایکس ہیں ۔یوں تو تارڑ کے سب سفرنامے ہی کمال ہیں مگر k-2 کہانی ، نکلے تیری تلاش میں ، امریکہ کے سو رنگ ، سندھ بہتا رہا ، خس و خاشاک زمانے میرے پسندیدہ ہیں۔ پچھلے سال ماڈل ٹاون پارک لاہور میں ان سے ملاقات کی سعادت ملی۔ ساتھ سیلفی بھی لی۔ یہ جتنے اچھے ادیب ہیں اس سے بڑھ کر ایک با اخلاق اور بہترین انسان ہیں۔اللّه ان کو صحت و تندرستی عطاء کرے ۔ تو چا چا جی نمبر ون رائٹر ہیں ۔٢- بابا یحییٰ خان : آج کل " ساری گڈ ی لال ہے " بہت وائرل ہو رہا ہے تو بابا جی کے لئے ساری گڈی کال ہے یعنی کالی ہے ۔ کالا رنگ ان کا پسندیدہ رنگ ہے، کتابوں کا رنگ بھی کالا ہے اور کوے پسندیدہ پرندے
Bigo live ایک آن لائن گپ شپ کی بیحد مقبول سوشل ایپ ہے۔ جہاں لڑکیاں لڑکے بچے اور بزرگ بن ٹھن کر فل میک اپ میں ویڈیو آن کر کے بیٹھتے ہیں اور صارفین یعنی غریب عوام اسی ونڈ و میں بات یا text کر سکتی ہے ۔ ہر طرف " بلے جانی " بلے راجہ " ویلکم ہو گیا اور ڈریگن مارو یا چلو pk لگائیں جیسی آوازیں آتی رہتی ہیں ۔ punishment pk میں دو لوگ براڈ پر pk لگاتے ہیں مقابلہ ہوتا ہے اور دونوں طرف کے حمایتی اپنی اپنی براڈ کاسٹر (سجی سجائی لڑکیوں ) کو sending یعنی گفٹس اور پوائنٹس دے کر جتواتے ہیں ۔ جو جیت جاتا یا جاتی ہے وہ دوسرے کو سزا دیتا ہے اور اگلی کو وہ سزا live ہی کرنی پڑتی ہے۔ یہ انتہائی واہیات اور فحش قسم کے کام کرواتے ہیں جیسے اپنی شرٹ میں ٹھنڈا پانی ڈالو اور یہ کہو ۔۔۔۔۔گھسیٹی مارو ۔۔۔دیوار سے خود کو رگڑو ۔۔۔یا فحش پوز میں push up مطلب بیٹھکیں لگاؤ ۔ منہ کو اس رنگ سے رنگ لو ۔ سيكسی آوازیں نکالو وغیرہ وغیرہ تو نیچے پاکستانی عوام جو جیتنے والی یا والے کو سپورٹ کرتے ہیں وہ سچی مچی کے پیسے لگا کر یہ گفٹس دیتے ہیں جیسے ایک dragon قریب 32000 روپوں کا آتا ہے ۔تو ایک بڑے مقابلے میں ١٠٠ ڈریگن تک مار دئیے جا
آج کل کچھ اس طرح کے لوگ ہیں کہ شیخی بازی اور show off کے چیمپین سمجھ لو۔ جو سہولت یا دولت یا چیز انھیں ملتی ہے شعبدہ بازی بلکہ شودہ بازی شروع ہو جاتے ہیں۔ اقسام کچھ یوں ہیں نو دو لتیے : تازہ تازہ امیر ہوۓ یہ حضرات ہر بات پر اپنے بینک بلینس کا ذکر ضرور کرتے ہیں سننے والا تنگ آ جاتا ہے ۔میں نے کل ٤ کروڑ کا پلاٹ لیا آج بیچ دیا کل پھر لوں گا تم کراے کے گھر رهتے ہو تم کیا سمجھو !نو دو کار : ہر بات میں اپنی کار کا ذکر ۔ یار یہ اس کی اسپیڈ تو چیک کر ۔ کیا رنگ و روغن ہے ۔کیا ماڈل ہے ۔ وغیرہ وغیرہ نو دو آفس لوگ : قسمت نے یاوری کی اور آفس مل گیا تو دماغ آپے سے باہر ۔ یعنی ان سے پہلے کبھی کوئی آفس کسی کو نہیں ملا تھا ۔ ٹرمپ کا بیحد سادہ آفس دیکھ لو یا بل گیٹس جو آفس میں صوفے پر سو جاتا تھا حقیقی کامیاب لوگ چھچھورے اور شوخے نہیں ہوتے ۔نو دو سیاح : یہ سب سے مزیدار قسم کے شوخے ہوتے ہیں ۔اگر کسی طرح باہر کسی ملک جیسے امریکہ یا کینیڈا ایویں وزیتر ویزا پر گرتے پڑتے پہنچ گیئے تو لگے شیخیا ں مارنے ۔ یہ نیاگرا فالز ہے آپ دیکھ رہے ہو نا کہ یہ ایک آبشار ہے جو کہ نیاگرا فالز کہلاتی ہے ۔ جیسے ان سے پہ
شیکسپیئر نے کہا تھا 'Lend me your ears ' یعنی دھیان لگا کر میری بات سنو اور پھر کہا " There is something rotten in the state of Denmark" کچھ تو گڑ بڑ ہے ڈنمارک کی ریاست میں ۔کوئی گھمبیر اور پیچیدہ قسم کی خرابی ہے ریاست میں- پاکستان میں یہی نو عیت کا ڈرامہ چل رہا ہے ۔آج پٹرول ٢١٠ روپے فی لیٹر تک جا پہنچا۔بجلی صاحبہ تو عید کا چاند ہو چکی ہیں۔ نظر ہی نہیں آتیں۔ میں نے ایک فلم دیکھنے کے دوران امپوریم میں یہ خوش خبری سنی تو سر پکڑ لیا۔ پٹرول بابا اور بجلی باجی کی پھرتیاں غریب عوام پر بجلیاں بن کر ٹوٹ چکی ہیں۔ میں نے ردعمل کے طور پر اپنی ہیوی بائیک سوزوکی ١٥٠ پر گھر سے نکلنے کی پابندی لگائی اور مفت داد عیش دیتی cd 70 کو اپنی سواری بنا لیا ہے ۔اسی رفتار سے اگر پیٹرول بڑھتا رہا تو سائیکل چلانا ہی پڑے گی ۔IMF کی سخت شرط کے تحت پیٹرول اور بجلی مہنگی تو کر دی ہے مگر حکومت ٢٣ % gdp جو حکومتی خرچہ ہے اسے بھی کم کر کے پٹرول اضافہ کے غیر مقبول اقدام سے بچ سکتی تھی۔ کاش غریب عوام (جس میں ہم بھی شامل ہیں ) کا کچھ تو خیال اور مداوا کیا جاۓ اب ہر طرف مہنگائی کا نیا دور ہو گا تو اس کو سنجیدگی سے حل ک
کل قسمت شومئی تھی زحمت کے لمبے سائے تھے یونہی اورنج لائن جو میاں حکومت کا ایک خوبصورت تحفہ ہے تو اس پر سیر کا دل چاہا۔تو علی ٹاون اسٹیشن سے سفر کا ٹھنڈا آغاز کیا chiller اے سی نے بلکل چل کر دیا uet اترا اور شالا مار باغ کی طرف رخ کیا ۔ وہاں بیرونی دیوار کے ساتھ ایل ہاکر ڈائجسٹ فروخت کر رہا تھا میں نے جلتا سیگریٹ بھجایا اور اسے وقت گزاری کی خاطر خرید لیا ۔ مگر صاحب جونہی اسے کھولا مجھے 440 وولٹ کا جھٹکا سا لگا آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گیئیں پورس کا ہاتھی بھی ایسے بگٹٹ نا بھاگا ہو گا جیسے میرا بھاگنے کا من ہوا ۔۔۔حلق خشک ہو چکا تھا کیوں کہ سامنے وہ تھی ۔۔۔جی ہاں وہی ۔۔۔یعنی میری پسندیدہ مصنفہ عمرہ احمد ۔۔۔۔پیر کامل سے مات کیا کیا اچھے ناول انھوں نے لکھے تو اس سمے من باغ باغ ہو کر شالا مار باغ ہو گیا۔ چند صفحات پڑھے پھر سوچا عمیرہ احمد کی کہانی آرام سے پڑھنی چاہیے تو اس دوران میں ٹکٹ لیکر باغ میں شاہ جہاں کے اس خوبصورت گارڈن میں پرویش کر چکا تھا ایک رومانوی درخت کے نیچے ریڈ بل اور گولڈ لیف کے کش لگاتا چھاؤں میں سکون سے اگلے صفحے پلٹا ہی رہا تھا کہ دوسرا حادثہ ہو گیا اب وہ بھی سامنے تھی جی ہاں میری دوسری
تازہ بتازہ ملکی صورتحال یہ ہے کہ عمران خان جب حکومت میں تھا یعنی قریب چار سال ، تو جب چاہتا اسمبلی توڑ کر انتخابات کرا سکتا تھا پورے آئین کی کوئی شق اسے نا روکتی تھی بس ایک شق تھی کہ اگر وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد پیش ہو تب یہ حق استمعال نہیں ہو سکتا تو خان صاحب نے چار سال حکومت فرمائی اور جب یہ حق نا رہا یعنی تحریک پیش ہوئی تب انہوں نے اسمبلی توڑ دی اور انتخابات کا اعلان کروایا حد ہے معصومیت کی ۔۔۔پھر سپریم کورٹ نے آئین کی اسی شق پر اسمبلی بحال کر دی نیا وزیر اعظم آیا اور اب خان صاحب سڑکوں پر تشریف لے آئے اور احتجاج اور لانگ مارچ پر اتر آئے۔کہ جی پلیز الیکشن یعنی انتخابات کی تاریخ دے دو ۔۔کتنی مزاحیہ صورتحال ہے ۔اور حکومت ایک سال کی بچی ہے یعنی پورے ایک سال بعد انتخابات ہو جانے ہیں مگر نہیں جی ہمیں تو ابھی تاریخ دو کہ ایک سال بعد انتخاب ہوں گے نہیں تو یہ کر دوں گا ملک غلام ہو گا خون کی ندیاں خونی انقلاب خونی نیازی ۔۔۔۔اب پھر سپریم کورٹ کے کندھے پر بندوق چلانے نکلے ہیں کہ ہمیں تحفظ دیں کہ لانگ مارچ کو کچھ نہیں کہا جائے گا تاکہ ہم جو مرضی کریں، جتنے درخت جلائیں جتنا مرضی موج مستی کریں اور لانگ مارچ نمبر ایک
دیکھی ہے میں نے اک آڑی ترچھی مورت اس اپسرا کی ہر ادا میں مقید ان چھوئی لذت کیسے قابو میں رہیں ہم، کیسے خود میں رہیں ہم ان گنت ترنگیں ہیں امگنیں ہیں اور کچھ شہوت دل اب چھوٹ گیا ہے حواس باختہ ہو کر ہم کیسے رکیں ؟ ان لبوں پر مچل اٹھی پھر تراوت بے ساختہ ہی سہی چوم نا لے کہیں اے وجود یہ دعوت نظارہ ہاتھ، یہ سرمگیں پاؤں پھر یکلخت جان جو تھی باقی کہاں رہی؟ اس ٹخنہ کے تل پہ یہ حشر سامان ابھی ہے آگے مزہ بہ درجہ غایت کاشف یہ حسن جاناں سم قاتل سے نہیں کم ہرگز بن گیا اک اک لمحہ قیامت ، گھل گئی ہر جگہ حلاوت
سرکار ایک نہایت بری خبر ہے ۔۔ابھی ابھی سماجی طائر یعنی انسٹا چول گرام نے بتایا ہے کہ یہ رشتہ نہیں ہو سکتا ۔ تیرے منہ سر پیر ہر جگہ خاک اور مرچیں ، مگر ہوا کیا اور کیوں ؟ٹیکنیکل فالٹ آ گیا ہے ۔۔۔ابے کیا مطلب ، کیسا فالٹ ؟یار بھولے سرکار جی وہ لڑکی نے صرف اپنے ہاتھ کی تصویر بھیجی ہے اور کہا ہے کہ اسی کو دیکھ کر اندازہ لگا کر فیصلہ کر لیں ۔ہیں ؟ یہ کیا بات ہوئی ؟ مذاق تو نہیں کر رہے ؟پی تو نہیں لی وسکی رم وغیرہ ؟ توبہ توبہ ایک پیگ بھی اگر لگایا ہو تو آپ کنوارے مریں اور آپ کی قبر میں یہ لمبے لمبے کیڑے پڑیں لعنت تیری سوچ پر ۔۔۔مریں مرے سارے دشمن بَثہمول۔ تم بھی سوری سر مگر آپ کو تو پتا ہے ایسی باتوں میں کون مذاق کرتا ہے ۔اش ۔۔۔اش ۔۔۔عشق ۔۔۔کتنی تنگ نظری ہے کتنا عجیب پاگل پن ہے ۔۔اب سرکنڈوں میں دے ہی دیا ہے سر تو موصلی یا مصلی یا کسی بلی کا کیاڈر ،یہ بتاؤ ہاں پھر کیا جواب دوں محترمہ کو ۔۔۔یہ تو مشکل ہے بات ، کریں کیا ہم ، ایسا کرو میری انگلی کی تصویر بھیج دو اسے ۔۔۔سمجھ گیے نا کونسی انگلی کی تصویر بھیجو گے وہی درمیانی تیر کمانی والی چشم آسمانی ظل سبح
یہ بہکی بہکی باتیں یہ الٹے پلٹے ارادے |
یہ بچگانہ سوچیں یہ احمقوں والے وعدے |
لگتا ہے جیسے آوارہ سی بادل ہو گئی ہے |
اللّه اللّه سچ ہے وہ تو بلکل پاگل ہو گئی ہے |
کاشف بھاگ چلو اس سے پہلے کہ خبر ہو |
حملہ ہو ایسا کہ الوہاب پہ بنی تیری قبر ہو |
اے راہ حق کے مجاہد آج تیری تربت پر کوئی تو ہے جو نوحہ خواں ہے ذکر وفا ہے آج یہاں حسن گفتگو کے پھول نچھاور ہیں تیرا مرقد کتنا معطر ہے اور چار سو پھیلی خوشبو ہے اے وکیل حق زہرہ اے وکیل ولایت علیتیری مجلس بپا ہیں فردوس میں ابھی بھی اور سنتے ہیں سب جنتی سب مومنین بلند سدا ہے پرچم ذکر اہل البیت الین سپاس گزار کاشف ، قبول سلام ہو اے شہید ملت، ترا ذکر دوام ہو تحریر : کاشف علی عبّاس
افطاری کا وقت قریب سے قریب ہوتا جا رہا تھا ...میرا دل بلیوں اچھل رہا تھا اور میں ملکوتی سی، آفاقی سی مسرت محسوس کر رہا تھا - اس مسجد کی افطاری کی بہت تعریف سنی تھی کہ یہاں کھجور میں اجوا، کیئ قسم کے پکوڑے، سموسے ، فروٹ و چنا چاٹ ، دودھ روح افزا تو صرف شروعات تھے ...راوی کہتا ہے (یہاں راوی سے مراد میرا دوست کمال ہے جس کویہاں افطاری کا شرف حاصل ہو چکا تھا اور کل ہی افطاری نوش جان کر چکا تھا اور اسی کی حوصلہ افزائی پر میں یہاں مفت افطاری کو موجود تھا...یہ لا ہور کے پوش علاقے ڈیفنس کی جامع مسجد تھی -)چکن، مٹن اور بعد میں فیرنی بھی مینو میں شامل تھیں ...اب آپ حساب لگا لیں کہ اتنا زیادہ مینو توعام سےعام اور سستے سے سستے ہوٹل میں بھی ٩٠٠ روپے تک تو کم از کم چلا ہی جاتا ہے-(عوامی کے ریٹس کے مطابق) مہنگائی کو تو پر ہی لگ گیے ہیں - نئی حکومت کے آتے ہی موبائل ٹیکس کا تحفہ تو آپ سب کو مبارک ہو ہی چکا ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟ تواتنا سب کچھ مفت میں ملنے کا سوچ کر ہی میری تو جیسے لاٹری نکل آئی تھی ویسے داتا صاحب سے مفت دیگوں سے ہر لاہوری کی طرح میں بھی فیضیاب بلکے پیٹ یاب ہو چکا تھا مگر افطاری وہ بھی ایسی مفت او
چلو فیصلہ کرتے ہیں ہاں جی کیا پرابلم ہے آپ کو ؟ تم مجہے حلف دو کس بات کا حلف ؟ایسے ہی حلف دو نہیں دیتا، جو کرنا ہے کر لو ۔۔۔اچھا پھر دیکھو کیا کرتی ہوں ارے ڈراؤ نہیں یار ، بتاؤ حلف کس بات کا ؟پوسٹ ڈیلیٹ کرو پیج سے ہیں ؟:ہیں ؟ یہ پوسٹ کہاں سے آ گئی؟جہاں سےبھی آئی ہو مری سے آ رہی ہو یا مکہ سے ۔تم پوسٹ ہٹاؤ نہیں ہٹاتا پوسٹ ۔۔جاؤ جو کرنا ہے کر لوآہم، دیکھو پھر میں کیا کرتی ہو اف مذاق کر رہا تھا چلو ہٹا دیتے ہیں جان تمیز سے بات کرو جان وان میں کسی کی نہیں اچھا ایک بات تو بتاؤ یہ تم چھوٹتے ہی مجہے بلاک کیوں کر دیتی ہو میری مرضی ۔۔۔عجیب ڈھوکسلا ہے چلو صلح کر لو صلح کرتی ہے میری جوتی واہ جی وہ نخرے تو دیکھو جناب کے ۔۔۔رسی جل گئی پر بل نہ گیا جائے گا بھی نہیں ، چنگیزی خون ہے میری رگوں میں اچھا میں چلی ارے کہاں چلی ابھی نا جاؤ چھوڑ کر کہ دل ابھی بھرا نہیں۔(خاموشی )تحریر کاشف علی عبّاس
حضرت عمر نے فرات کنارے مرتے بھوکے کتے تک کی ذمہ داری کو ریاست و حکومت پر ڈالا تھا ۔ تو اگر پاکستان کے مجبور عوام بھوکے مر رہے ہوں، تو اس کی سیدھی سیدھی ذمہ داری سابقہ حکومت پر جاتی ہے، جب ملک ناکام ہو چکا ہو تو خود اری، غیرت اور حریت پسندی کی بین ہر گز نہیں بجانی چاہیے ۔ٹیپو سلطان کی مثال تو دیتے ہو یہ بھی بتاؤ کہ اس کے دور میں عوام کتنی خوشحال تھی، امام حسین کا نام تو لیتے ہو مگر کیا ان کے کردار کا پانچ فیصد بھی اتنے سالوں میں نظر آیا ؟بلا شبہ یہ پاکستان کی ناکام ترین حکومت تھی، جس کے دور میں ہوشربا مہنگائی ، ناکام معشیت ، بیروزگاری اور عوامی زبوں حالی عروج پر رہی۔ خارجہ پالسی میں یک مشت روس کی جانب جھکاؤ احمقانہ فیصلہ تھا- خاص کر جب روس نے جارحیت پسندی کا ثبوت دیا ۔ گداگری اور عالمی کشکول نے ملکی سیاست و سالمیت کے وقار کی دھجیاں اڑا دیں - سونے پر سہاگہ یہ حکومت اپنے ہی وعدے پورے نا کر سکی، نا گھر بنے نا مفت کی نوکریاں ، بلکہ ملک میں کسی طرح کی ترقی نہیں ہوئی (جس پر عوام کا دم گھٹ گیا ) میں سمجھتا ہوں کہ میاں برادران کی حکومت یا کوئی بھی حکومت کم از کم اس تنزلی اور ناکامی کے چوں چوں کا مربہ
میں اکثر تنہائی میں پہروں اس گنجل خیال پر سوچتا ہوں کہ آخر انسانی مقصد حیات کیا ہے ؟ ہے کیا یہ آخر؟ یہ زندہ مردہ کا کھیل کیوں ہے کس لئے ہے ۔دنیا میں عزت یا دولت یا شہرت یا امیر بن کر یا داد و عیش دے کر کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔کامیاب آخر ہے کون؟ وہ جسے دنیا والے کامیاب سمجھیں؟ تو جس کے پاس اقتدار و حکومت ہو، دنیا اسے کامیاب سمجھتی ہے مگر اقتدار و طاقت تو اکثر ناجائز دولت خرچ کر کے ، دوسروں کو ڈرا دھمکا کر، جھوٹ بول کر غرض کہ سیاست کا ہر جرم کر کے حاصل کیا جاتا ہے تو کیا اتنی برائی کی چیز کو دنیا کامیابی سمجھتی ہے ؟ تو کیا یہ آپ کے نزدیک کامیابی ہے ؟؟؟ ہر گز نہیں، غیر اخلاقی حرکتوں پر کامیاب ہونا کامیابی نہیں ہے۔اچھا تو پھر جس کے پاس عزت ہے وہ کامیاب ہے، لوگ جسے حاجی صاحب حاجی صاحب کہیں، دوسروں کو اس کی مثال دیں، بچوں کو اس کی روش پر چلنے کی تلقین کریں ۔۔۔مگر میں نے ان سو کالڈ عزت دار لوگوں کے بھی بہتیرے سکینڈلز دیکھے ہیں، یعنی منافقت سے، مکاری سے اور عیاری سے لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونک کر نام نہاد دو نمبر قسم کی عزت بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔اور دنیا اسے کامیاب سمجھتی ہے، جب تک کہ اس کا بھ
کیی سو برس پہلے جاپانی بمریری کے عہد حکومت میں ایک نوجوان سمورائی یعنی جنگجو جس کا نام تمودا تھا ، ایکدن لارڈ آف نوٹو کے دربار میں ملازمت کے لیے آیا- وہ قوی ہیکل جسامت کا مالک بیحد خو شرو پر صنعت نوجوان تھا -خوبصورتی کیی سو برس پہلے جاپانی بمریری کے عہد حکومت میں ایک نوجوان سمورائی یعنی جنگجو جس کا نام تمودا تھا ، ایکدن لارڈ آف نوٹو کے دربار میں ملازمت کے لیے آیا- وہ قوی ہیکل جسامت کا مالک بیحد خو شرو پر صنعت نوجوان تھا -خوبصورتی کے ساتھ ساتھ وہ بیحد بہادر اور وفا دار بھی تھا - لارڈ آف نوٹو اس سے بیحد متاثر ہوا اور اسے اپنے دربار میں ملازمت دے دی - چند ہی مہینوں میں تمودا نے اپنی قابلیت اور ہنر کا سکا ہر ایک بَثمول لارڈ آف نوٹو پر جما دیا - وہ جنگی میدان کے ساتھ ساتھ صاحب علم کا ماہر بھی ثابت ہوا - پھر ایک دن لارڈ آف نوٹو نے اسے ایک اہم مہم پر بھیجا ہماری کہانی اسی مہم سے شروع ہوتی ہے ...یہ مہم اسے لارڈ آف کیٹو جو ملحقہ ریاست کا بادشاہ تھا ، کی طرف پیغام رسانی پر لے جاتی ہے - تمودا کو یہ خبر نا تھی کہ بظاھر انتہائی سادہ لگنے والی یہ مہم اس کی آخری مہم ثابت ہو گی، موت کی وادیوں س
تعلیم حاصل کرو اگرچہ |
کام لگتا ہے ذرا مشکل یہ |
مگر دولت علم ہے ایسی کہ |
خرچو گے جتنا کم نہ ہو یہ |
اگر مل رہا ہے کوئی موقع تو |
پرچم علم کا اٹھا لو، معلم بنو |
تم نے بے وجہہ کسی سے رشک کیا ہے اور تم نے کبھی کسی سے عشق کیا ہے؟جب تنہائی بڑھ رہی ہو ۔۔۔جیسے رات کی سیاہ چادر دھیرے سے سرکے ۔۔۔اور من میں نت نینے جذبات بھڑکے ۔۔۔اور بڑھ رہی تنہائی ہے ۔۔۔آشنائی ہے ۔۔۔جدائی ہے ۔۔۔تو اس وقت دنیا سے الگ تھلگ ہو کر کچھ خود سے مخلص ہو کر اگر سوچو کہ کیا جیون میں اس سمے سب حاصل ہے اور کامل ہے اور شانتی کی پائل بجتی ہے مگر من کیوں گھائل ہے ؟ یہ درد اب کیوں ہے یہ کیا ہے اس کا سبب اب کیا ہے کیوں ہے تو سچ سچ بتاؤ ۔۔۔تم نے بے وجہہ کسی پر شک کیا ہے اور تم نے کبھی کسی سے عشق کیا ہے؟جب یہ دل عجب انداز میں بنا وجھہ کے ایسے ہی کوئی نام پڑھ کر دھڑکے بری طرح کھڑکے ۔۔تو سمجھ لینا کہ یہ عشق کی گہری چال ہے جو واپس نہیں ہوتی جتنا انکار کر لو ۔۔۔یہ ہو کر رہتا ہے ۔۔۔تبھی رومانوی تباہی ہوتی ہے سچ سچ بتاؤ ۔۔۔کبھی کسی سے عشق کیا ہے؟عشق ؟؟؟تحریر : کاشف علی عبّاس
لاہور سے ایک لڑکی کا کرونا ٹیسٹ پازیٹیو آیا |
تو لڑکی اور اس کے بوائے فرینڈ کے خاندان کو قرنطینہ کردیا گیا |
بعد میں پتہ چلا کہ لڑکی کے 3 بوائے فرینڈز اور بھی ہیں لہذا اب ان 5 خاندانوں کے 37 ارکان کو بھی قرنطینہ میں ڈال دیا مزید تحقیق کرنے پر پتہ چلتا ہے |
کہ اس کے بوائے فرینڈ کی دو مزید گرل فرینڈز بھی ہیں اور ان گرل فرینڈز کے مزید آگے دو دو بوائے فرینڈز بھی ہیں اور ان میں سے ایک شادی شدہ ہے |
کمبختو ریاضی دی وی مت مار دتی نے حساب وچ ہی نہیں آ رہے |
پہلا حصہ غالب کے بارے میں عبادت بریلوی لکھتے ہیں، ”غالب زبان اور لہجے کے چابک دست فنکار ہیں۔ اردو روزمرہ اور محاورے کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اس کی سادگی دل میں اتر جاتی ہے۔“عبد الرحمان بجنوری لکھتے ہیں کہ، ”ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں ”وید مقدس“ اور ”دیوان غالب“ ۔“اردو شاعری میں مرزا غالب کی حیثیت ایک درخشاں ستارے کی سی ہے۔ انہوں نے اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونک دی۔ اسے نئے نئے موضوعات بخشے اور اس میں ایک انقلابی لہر دوڑا دی۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ خیالات جا بجا ملتے ہیں۔ غالب ایک فلسفی ذہن کے مالک تھے۔ انہوں نے زندگی کو اپنے طور پر سمجھنے کی بھر پور کوشش کی اور ان کے تخیُّل کی بلندی اور شوخیٔ فکرکا راز اس میں ہے کہ وہ انسانی زندگی کے نشیب و فراز کوشِدّت سے محسوس کرتے ہیں۔غالب انسانی زندگی کے مختلف پہلوئوں کا گہرا شعور رکھتے ہیں۔ اس کے بنیادی معاملات و مسائل پر غور و فکر کرتے ہیں۔ اس کی ان گنت گتھیوں کو سلجھا دیتے ہیں۔ انسان کو اس کی عظمت کا احساس دلاتے ہیں اس کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونا سکھاتے ہیں۔ اور نظام کائنات میں اس کونئے آسمانوں پر اڑاتے ہیں۔ غالب کی ش