جو کرتا ہوں وہ پر نہیں پاتا
جو کہتا ہوں وہ کر نہیں پاتا
مشکل کام لگے، کوئی بھی ہو
اتنا مست کہ مر نہیں پاتا
قُربِ یار عجیب بَلا ہے
زندہ لاش، اگر نہیں پاتا
دیکھا ناد علیٔ ولی پڑھ کر
ڈرنا چاہوں میں ڈر نہیں پاتا
دن سے خشک گلا ہے مگر یوں
مے حق نوش پہ تر نہیں پاتا
مستی شوق میں دھر جو دیا تھا
اُف زانو پہ میں سر نہیں پاتا
ہاں محبوب ہے نادم خود پر
کھو کر ہم کو وہ پھر نہیں پاتا
مجھ کو یاد ہے وعدہ تیرا
دیکھوں راہ مگر نہیں پاتا
شب تاریک میں چھاۓ اجالا
ایسی کوئی سحر نہیں پاتا
جا ابلیس کہ غرق مرے اب
کاشف آج وہ شر نہیں پاتا
------------------------
بحرِ: ہندی/ متقارب اثرم مقبوض محذوف
وزن : فعلن فعْل فعول فعولن

0
34