بس وہ چراغِ فسادِ خلق بُھجا کر رکھا |
میں نے تیری محبت کو چھُپا کر رکھا |
پتھر لگتے رہے،ہم سہتے رہے لیکن |
خون بہا تو لگا ہاں دِیا جلا کر رکھا |
اُف معصوم مِرا محبوب، تبھی دیکھو |
عشق میں روز تماشہ نیا اُٹھا کر رکھا |
جی میں یہ تھا کہ گلے سے لگاتا تجھے ہمدم |
مشکل سے میں نے لبِ جاں دبا کر رکھا |
روزِ حساب عجیب معاملہ تھا کاشف |
ہم تو تھے عشق زدہ، کہ الگ بٹھا کر رکھا |
________________________ |
فعلن فعْل فعولن فعْل فعولن فع |
بحرِ ہندی/ متقارب مسدس مضاعف |
معلومات