بس وہ چراغِ فسادِ خلق بُھجا کر رکھا
میں نے تیری محبت کو چھُپا کر رکھا
پتھر لگتے رہے،ہم سہتے رہے لیکن
خون بہا تو لگا ہاں دِیا جلا کر رکھا
اُف معصوم مِرا محبوب، تبھی دیکھو
عشق میں روز تماشہ نیا اُٹھا کر رکھا
جی میں یہ تھا کہ گلے سے لگاتا تجھے ہمدم
مشکل سے میں نے لبِ جاں دبا کر رکھا
روزِ حساب عجیب معاملہ تھا کاشف
ہم تو تھے عشق زدہ، کہ الگ بٹھا کر رکھا
________________________
فعلن فعْل فعولن فعْل فعولن فع
بحرِ ہندی/ متقارب مسدس مضاعف

0
42