مرے دل میں اک بے رخی بن گئی ہے
کبھی تشنگی زندگی بن گئی ہے
میں خود کیا بدلتا، پہنتا میں اور کیا
نمائش فقیری ہی کیوں بن گئی ہے
کھلا کر مٹا بھوک بھر پیٹ چل اب
غریبی امیری ہی کیوں بن گئی ہے
کھنڈر جو دکھاتے ہیں عبرت نشاں کیا
یہاں ان کہی دل لگی بن گئی ہے
سکوں تھا، جنوں تھا ، بڑا پر فسوں تھا
تری دوستی دشمنی بن گئی ہے
یہ کاشف کبھی سوچنا تم اکیلے
خوشی بد نصیبی ہی کیوں بن گئی ہے

152