ڈائجسٹ رائٹرز بمقابلہ مستند اردو ادب رائٹرز کا مقابلہ بنتا ہی نہیں ۔ ایک طرف ہیوی ویٹ اردو ادب رائٹرز ہیں ایک طرف لائٹ ویٹ ڈائجسٹ رائٹرز ۔۔۔ایک طرف اعلیٰ انداز بیاں ، زبان کی چاشنی، اچھوتے مگر حقیقت پسندانہ موضوعات، شاندار کردار نگاری، زبان کا صحیح استعمال ، نت نئی ترکیبات وغیرہ ہیں تو دوسری طرف ان سب چیزوں سے ماورا پاپولر فکشن میں مخصوص طبقہ یعنی خواتین ڈائجسٹ رائٹرز ہیں۔ کیا مرزا ہادی رسوا کے امراو جان ادا کا موازنہ کسی ڈائجسٹ رائٹر کے ناول جیسے (پیر کامل ) عمیرہ احمد سے ادبی تکنیکی فن پر کیا جا سکتا ہے؟ یا یہ موازنہ ہی بے جوڑ ہے ۔ تارڑ کا پیار کا پہلا شہر ہو یا مفتی کا علی پور کا ایلی، اداس نسلیں ہو یا راجہ گدھ کو موجودہ ناولز کے برابر لا سکتے ہیں؟ ۔ منٹو ، پریم چند ، بیدی، کرشن چندر ، غلام عبّاس کے افسانوں کو کیا آج کے لکھے افسانوں کے مقابل لایا جا سکتا ہے ۔میر و غالب و اقبال و فیض کو موجودہ شاعروں کے کلام سے جانچا جا سکتا ہے؟ مزاح میں شفیق الرحمن یا یوسفی یا کرنل محمد خان یا خالد اختر کی شگفتہ تحریر کو آج کل لکھے جانے والے ڈائجسٹ مزاحیہ چیزوں سے پرکھا جا سکتا ہے؟
ادب میں وہی چیز داخل ہو گی جسے عوامی مقبولیت کے علاوہ اہل زبان یا اردو ادب کے نقاد یا استاد بھی اس قابل سمجھیں اور وہ جس صنف میں لکھی گئی ہو جیسے اگر ناول ہے تو کیا وہ ناول اردو ناول نگاری کے تکنیکی ادبی اصولوں پر ہے یا نہیں؟ یعنی عوامی مقبولیت کے ساتھ مستند نقاد کی قبولیت کے ساتھ ساتھ ادبی تکنیکی پہلو کو پار کر کے ہی ادب کا حصہ بن سکتا ہے ۔
اور جہاں تک بھاری بھرکم اردو ادب کا ہلکے پھلکے ڈائجسٹ ادب سے موازنہ ہے تو شاید یہ ممکن نہیں ۔ایسا نہیں کیا جا سکتا۔ ہیوی ویٹ کلاسک ادب کا لائٹ ویٹ ڈائجسٹ ادب سے مقابلہ ممکن نہیں۔ مقبولیت اگرچہ دونوں کو ملتی ہے مگر ایک دیرپا بن کر کلاسک کا درجہ اختیار کرتی ہے اور دوسری جلد مدھم ہو کر ڈھل جاتی ہے ۔
تحریر : کاشف علی عباس
معلومات