وحید مراد ، ممتاز مفتی اور آہو چشم راگنی
از مستنصر حسین تارڑ
تو جب کبھی فردوس مارکیٹ کے نواح میں واقع قبرستان میں اپنے والدین اور چھوٹے بھائی زبیر کی قبر پر فاتحہ پڑھنے جاتا ہوں تو قریب ہی عوامی اداکار علاؤالدین کا مدفن ہے اور اس پر کوئی پھول نہیں چڑھاتا، قبرستان کے کونے میں وحید مراد کی قبر ہے…اور اس کی رہائش بھی اس قبرستان کے ساتھ ہی تھی… مجھے یاد ہے کہ جب میں نے اس کے جنازے کو کندھا دیا تو وہ چارپائی شکستہ تھی جس میں اس کا جسد خاکی لپٹا پڑا تھا۔
وہ پاکستانی فلمی دنیا کا سب سے بڑا سپرسٹار تھا جسکے ساتھ عوام نے اور خاص طورپر نوجوان نسل نے ٹوٹ کر محبت کی…شاید آج کا شاہ رخ خان بھی اس سے بڑھ کر پسندیدگی کے جنون سے دوچار نہیں ہوسکا… اس کا ہیئرسٹائل دلیپ کمار کے بعد ایک فیشن کی صورت اختیار کرگیا پچھلے برس ہالینڈ میں ایک ایسے پاکستانی سے ملاقات ہوئی جو ہیئر سٹائل کے علاوہ وحید مراد کے انداز ابھی تک اپنائے ہوئے تھا کہ جن زمانوں میں وہ پاکستان سے یورپ کی جانب گیا ان دنوں یہاں وحید مراد کاراج تھا… اس کا لباس اسکے ذوق جمال کی گواہی دیتااور جس طور وہ کسی گانے کی فلم بندی لاپروہ انداز میں کرتا تھا، کسی اور ہیرو کے نصیب میں ویسا دلبرانہ انداز نہ ہوا…آہستہ آہستہ دبے پاؤں گمنامی کی تاریکی چلی آئی اور وہ پس منظر میں جانے لگا…اور وہ اس دکھ کو برداشت نہ کر سکا…شنید ہے کہ مری وغیرہ میں کسی فلم کی شوٹنگ ہو رہی تھی اور ان دنوں’’ چکوری،، سے شہرت حاصل کرنیوالا لمبی ناک والا دلیپ کمار سے مشابہ اداکار ندیم عوام کی نظروں میں گھر کررہا تھا…ندیم اور وحید مراد شوٹنگ سے فارغ ہو کر گپ لگا رہے تھے…وحید مراد اس فلم میں ہیرو نہ تھا ندیم تھا… لاہور کے کسی کالج کی لڑکیوں کی بس وہاں رکی اور لڑکیاں چیختی ہوئی ان دونوں کی جانب بھاگیں…وحید مراد کا خیال تھا کہ وہ اسے دیکھ کر شور مچاتی چلی آرہی ہیں…لیکن وہ سب ندیم کے گرد ہوگئیں کسی ایک آدھ نے وحید مراد سے آٹوگراف حاصل کئے لیکن ان میں سے بیشتر کی محبت کا مرکز ندیم تھا…کہا جاتا ہے کہ وحید بے حد رنجیدہ ہوا…ازاں بعد ایک حادثے کے دوران اس کے چہرے پر چوٹیں آئیں اور یہ وہ چہرہ نہ رہا جس پر لاکھوں لوگ جان دیتے تھے…چہرے کا یہ بگاڑ اسے سکون آور ادویات کی زیادتی تک لے گیا اور پھر وہ مرگیا…یہ صرف شہرت کی بے وفائی تھی جس نے اسے مارڈالا…
ایک زمانہ تھا جب مظہر شاہ پنجابی فلموں میں ایک ولن کے طور پر نمایاں ہوا…اور اس کی شخصیت کی گھن گرج ایسی تھی کہ اس کے سامنے فلم کا ہیرو بھی بیکار ہو جاتا… وہ پہلا شخص تھا جس نے پنجابی فلموں میں ایک نعرہ مبارزت یعنی’’ بڑھک،، کو رواج دیا…بعد میں سلطان راہی نے اس کے انداز اپنا کر بڑھا چڑھا کر شہرت کمائی…اکثر ایسا ہوتا کہ وہ اس سینما ہال میں اپنے دوستوں کے ہمراہ چلا جاتا جہاں اس کی کوئی فلم نمائش پر ہوتی، انٹرول کے دوران وہ اپنی نشست سے اٹھ کر منہ پر مٹھی رکھ کر ایک گرجدار بھڑک لگاتا تو ہال میں بیٹھے تماشائی دیوانہ وار اسکے پاس آکر خود بھی بڑھکیں لگانے لگتے اور وہ ایک بادشاہ کی مانند ان کی جلو میں اپنے مکالمے بولنے لگتا اور عوام الناس اس پر نچھاور ہونے لگتے اور پھر قانون قدرت …کمال کے بعد زوال…مظہر شاہ کی جگہ ایک اور ولن جلوہ گر ہوا جس کی سندھی لب و لہجے کی پنجابی اور خوش شکلی نے لوگوں کو موہ لیا، ان دنوں مظہر شاہ گوالمنڈی کے کسی مکان کے باہر ایک تھڑے پر بیٹھا… گمنام بیٹھا رہتا تھا اور بہت کم لوگ اسے پہچانتے تھے، شہرت اور ناموری نے اس سے منہ موڑ لیا تھا… انہی دنوں وہ اکیلا کسی سینما ہال میں چلا گیا اور انٹرول کے دوران اپنی نشست سے اٹھ کر بڑھکیں لگانے لگا…ہال میں بیٹھے لوگوں نے دیکھا کہ ایک بوڑھا شخص گھگیاتی ہوئی آواز میں بے وجہ بڑھکیں لگا رہا ہے تو انہوں نے سمجھا کہ کوئی پاگل ہے جو غل مچا رہا ہے… مظہر شاہ بھی اس کے بعد بہت مدت جیا…مر گیا۔
اسلام آباد میں ایک ادبی تقریب کے اختتام پر کچھ لوگ مجھے گھیر لیتے ہیں…آٹو گراف لے رہے ہیں اور محبت کا اظہار کر رہے ہیں کہ ان دنوں پاکستان ٹیلی ویژن کی صبح کی نشریات کامیں اولین میزبان تھا اور آٹھ برس تک پورے پاکستان میں ہر گھر میں’’ السلام علیکم پاکستان… پیارے پاکستان، سارے پاکستان،، کے میرے کلام سے صبح ہوتی تھی، میں ان مداحین سے فارغ ہوا تو ممتاز مفتی میرے قریب آئے…نہایت درشت لہجے میں کہنے لگے…تارڑ۔ میڈیا کو چھوڑ دو، اس کی شہرت تمہیں کھا جائے گی، تم میں ایک بڑا ادیب بننے کی صلاحیت ہے لیکن میڈیا کی چکا چوند تمہاری اس صلاحیت کو گھن لگا دے گی…میں تب تک تم سے نہیں بولوں گا جب تک تم اس کتیُ ّ شہرت سے ترک تعلق نہیں کرتے، میں نے مفتی صاحب سے عرض کیا کہ دیکھئے میڈیا میری روزی روزگارکا سلسلہ ہے اور یقین کیجئے میں نے اس کی شہرت کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا اور ادب میری پہلی محبت ہے لیکن ان پر کچھ اثر نہ ہوا۔
ازاں بعد ممتاز مفتی سے جب کبھی آمنا سامنا ہوتا وہ ایک ناراض شکل کے ساتھ منہ موڑ کر مجھ سے بے رخی اختیار کرجاتے…انہوں نے اپنی موت سے تقریباً چھ ماہ پیشتر مجھے ایک خط لکھا جس کے مکمل مندرجات کو ظاہر کرنا مناسب نہیں لیکن انہوں نے اقرار کیا کہ ان کا خدشہ درست نہ تھا اور میں نے شہرت کے تکبر سے دامن بچارکھا ہے اور ادب کو ہی اپنی ترجیح اول ثابت کر دیا ہے…بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے برداشت اور صبر کا ایسا مادہ ہوتا ہے کہ وہ شہرت کے چھن جانے پر بھی شکایت نہیں کرتے اور نارمل زندگی بسر کرتے ہیں…اس کی ایک روشن مثال فلم سٹار راگنی تھیں، ان کے حسن اور سحر طراز آنکھوں کی پورے ہندوستان میں دھوم تھی اور انہیں آہوچشم کے لقب سے پکارا جاتا تھا… انہوں نے اپنے وقت کے بڑے بڑے ہیروز کے ساتھ کام کیا اور ان میں سہگل بھی شامل تھے…کہا جاتا ہے کہ بیشتر اداکار ان کے ساتھ فلم میں کام کرنے سے کتراتے تھے صرف اس لئے کہ اگر فلم میں راگنی ہیں تو پھر دیگر اداکاروں کی جانب کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا، سبھی راگنی کی آنکھیں دیکھتے تھے…انہوں نے زندگی کے آخری ایام میرے گھر سے چند قدم کے فاصلے پر ایک معمولی سی کالونی کے نہایت معمولی کمرے میں گزارے…کمرے کا سیمنٹ اکھڑا ہوا، فرش میں دراڑیں۔
ایک بوسیدہ بستر اور سرہانے میں کسی فلاسک کی بجائے منرل واٹر کی ایک بوتل جس میں نل کا پانی تھا، نہ کوئی عزیز نہ غم خوار…بالکل تنہا اور اس کے باوجود آواز میں وہی دبدبہ اور تمکنت اور لب و لہجے میں وہی نکھار اور نفاست … جب وہ ملکہ ہند کا کردار ادا کیا کرتی تھیں، لب پر کوئی شکایت نہ شکوہ، اپنے حال پر راضی اور خوش… ایسی بہت سی داستانیں ہیں جو ان کہی رہ جائیں گی…لیکن ایک انسان کیا کرے اگر ایک روز لاکھوں لوگ اس کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے ٹوٹ پڑتے ہیں اور پھر ایک روز کوئی آنکھ اٹھا کر بھی اس کی جانب نہ دیکھے…بالآخر یہ قبر کی مٹی ہوتی ہے جو سب کو مٹی کرکے برابر کر دیتی ہے…مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی، مہاراجہ دلیب سنگھ کی بیٹی شہزادی بمباں سدرلینڈ لاہور میں جیل روڈ کے کرسچن قبرستان میں دفن ہے، کتبے پر فارسی کی ایک رباعی کندہ ہے کہ قبر کی مٹی آگاہ نہیں ہوتی کہ اس میں ایک شاہ سوتا ہے یا گدا خوابیدہ ہے…یہ سب کو برابر کر دیتی ہے۔
معلومات