اے میری گزر چکی زندگی سن ،اب دن حساب کے آئے ہیں
تیرے دامن میں تلخ راز ہیں، پے در پے غموں کے سائےہیں
کبھی طنزو تشنیع کے سامنےرہے ، کبھی گردش ایام میں جا گرے
کبھی غیروں نے چھلنی کر دیا ، کبھی اپنوں کے تیر کھائے ہیں
جو اگر سکون ملا تو وہ لے لیا ، کچھ رند و مستی میں بھی کھیل لیا
مگر کیسے کیسے کوہ گراں ملے ، جو گونہ بیخودی میں چلائے ہیں
جہل و شر کے بت تھےتنے ہوۓ بے دینی کے درخت تھے
میں ڈٹا رہا، نا جھکا، بس کہ بہت شر پسند صنم خانے ڈھائےہیں
کچھ داغ دل ایسے لگے ، مدتیں گزریں پر وہ نہ چھپے، بڑھ گیۓ
یہ نشان جاتے نہیں عشقیہ جان گنواتے نہیں،بڑے ستائے ہیں
رہین روزگار اگرچہ چلتا رہا ، اور مکافات عمل میں روز بدلتا رہا
مختصر یہی صورت حال تھی، کچھ تو روئے اور کچھ رلاۓ ہیں
ذکر اک پری وش کا بھی ہو اب، جو نوخیزی کی پہلی مست شب
بڑے چاؤ اور ارمان سے کہے، آپ کتنی دور کی کوڑی لاۓ ہیں
لب لباب کاشف اس زیست ناحق کا حق، ادا ہو مگر ہے قلق
جیسا جینا تھا ویسا نا جی سکے،اب وقت قضا پرچم شکوہ اٹھائےہیں

0
50