میرے سپنے یونہی پورے ہوتے نہیں
میں سو جاؤں کیسے جب وہ سوتے نہیں
اک لڑائی سی ہے جو چلتی جائے ہے
غیروں کو نا ہے، مرے بھی ہوتے نہیں
کوئی سمجھے کیا؟ حسینہ یا اپسرا؟
دل دیا، جاں بھی ،مُتاثر ہوتے نہیں
اس سے بہتر ہے کہ پتھر سے عشق ہو
سنگ ظالم اس قدر بھی ہوتے نہیں
ملنا مشکل ہے، تو کوشش کاشف نہ کر
طیش میں آ کر کبھی حل ہوتے نہیں
شاعر: کاشف علی عباس

0
93