میرے سپنے یونہی پورے ہوتے نہیں |
میں سو جاؤں کیسے جب وہ سوتے نہیں |
اک لڑائی سی ہے جو چلتی جائے ہے |
غیروں کو نا ہے، مرے بھی ہوتے نہیں |
کوئی سمجھے کیا؟ حسینہ یا اپسرا؟ |
دل دیا، جاں بھی ،مُتاثر ہوتے نہیں |
اس سے بہتر ہے کہ پتھر سے عشق ہو |
سنگ ظالم اس قدر بھی ہوتے نہیں |
ملنا مشکل ہے، تو کوشش کاشف نہ کر |
طیش میں آ کر کبھی حل ہوتے نہیں |
شاعر: کاشف علی عباس |
معلومات