سُرعتِ شوق میں وہ آ پہنچی
موت اپنے ہی گھر، کو جا پہنچی
تم مرے پہلو میں ابھی ہوتے
عرش تک کب مری دعا پہنچی
باغ میں کھل اٹھے یہ سن کر گل
چشم دل منتظر صبا پہنچی
ہوش میں اب بھلا کہاں رہ لوں؟
اک جھلک حسن کی ادا پہنچی
یوں تو ہر چیز تجھ تلک جاۓ
بات میری فقط جو نا پہنچی
تم جو انجان بن چکے کاشف
عشق میں کیا اٹھے ، قضا پہنچی

0
92