تیری ناراضی سے بے حد ڈر لگتا ہے
تیری خاموشی میں تو اکثر لگتا ہے
سوچتا ہوں کیا خطا کر بیٹھا تھا میں
معذرت کرتا ہوں میں پھر گر لگتا ہے
حاجتِ دل جب ملن کی ہو اک دعا
بات تم کر لو مجھے بہتر لگتا ہے
جانتی بھی ہو سمجھتی بھی ہو مگر
جاں نکلتی جیسے ہو شب بھر لگتا ہے
ٰعشق میرا کاش تم کچھ پڑھتی ذرا
بس جدا تن سے ہوا یہ سر لگتا ہے
بازی کچھ ایسی بنی لُٹ سا میں گیا
دست قاتل خون میں اب تر لگتا ہے
ٰقرب یارِ کاشفِ خستہ حال تھا
اجنبی ہو کر کہ اپنا پر لگتا ہے

0
62