اب کیا کہوں آج کل کس سرور میں ہوں
اک انبساط اک بے خودی و غرور میں ہوں
نا کوئی الجھن ہے نا کوئی مشکل بندھن ہے
سکھ چین ہے سالم شراب گیتی آبخور میں ہوں
بات کرو کچھ ستاروں کی کچھ دامن کوہ ماہ پاروں کی
کچھ کوہ طور پر ہوں کچھ محو جام آب طہور میں ہوں
میں وہ شمس ہوں جو بلند ہے ، وہ قمر جو ارض پہ چمکے
کبھی تو بس غیب میں ہوں ، کبھی ہاں ظہور میں ہوں
اس مستی و مسلسل ہیجان میں مبتلا اے خوش کن کاشف
اہل ستم پر کر ستم ، اہل غم نم ،اہل حق صبور میں ہوں
شاعر : کاشف علی عبّاس

0
65