Like and Share my page on Facebook
Part 1 (پہلی قسط ۔ یہ ٢٠١٢ میں شرو ع کیا تھا مصروفیت کو وجہہ سے اب جا کر مکمل ہوا ہے ۔)
وہ اکیلی بیٹھی تھی اور رات کافی گہری ہو چکی تھی ... ایک شب سیاہ جیسی ناگن زلف تھر تھرا کر تاریک لبادے میں ملبوس کالی رات کا حصہ بن چکی تھی - وہ پر فسوں نیلی آنکھیں ، جن کی گہرائی حسن کا کوئی آلہ نہ ماپ سکے ، ایسی نیلو نیل شاندار بناوٹ والے نین اس کے تھے- جیسے تنہا اور ویرانے میں ایک حسین شوخ گل کھلا ہو جو اپنے نور سے اس تنہائی کو آباد کر دے؛ اس کی آنکھیں ایسے ہی دو پھول تھیں جو وجود چمن میں بہار حسن کی موجودگی کی دو روشن نشانیاں تھیں - وہ دراز کالے بال جن کی چمک اور لشک ناقابل بیان تھی، بل کھاتے خوبصورت بال، جنھیں ایک ادا سے وہ جھٹکتی تھی - ایک سپیدہ سحر سا ہالہ اس کے کتابی چہرے کے گرد طواف سا کر تا تھا - جیسے کوئی شاخ سبز اپنے وجود سے نمو پانے والی ایک چٹختی کلی کو مزید نکھار دیتی ہے ،جلا بخش دیتی ہے تو ایسے ہی سراپا سیاہ میں وہ سفید و سرخ چہرہ ایک خوشگوار تاثر چھوڑتا تھا ، جوانی کی تمازت سے بھرپور چہرہ جو چہروں میں خاص تھا، چند لمحے پیشتر وہ اس جنگل سے متصل پہاڑی پر، رات کے اس وقت اکیلی نہ تھی ، وہ اس کے ساتھ تھا ...تاکن وہاں پر موجود اس کو چپ چاپ تکے جا رہا تھا ، اور وہ چمکتے ستاروں میں ، سرد ہوا سے ہمکتے وجود کے ساتھ، خاموشی کے ساتھ ان ستاروں میں اپنی منزل تلاش کرتی تی ، تاکن کے سوال کا جواب کھوجتی تھی مگر اب تاکن نہ تھا اور وہاں ڈراونی افسردہ تنہائی کے سوا کچھ نہ تھا ...
*************
'تاکن! مجھے مخفی علوم سکھا دیں ' تاکن نے حیرت سے اپنے سامنے موجود لڑکی جو بلاشبہ بیحد حسین تھی کو غور سے دیکھا جس کے اس سوال سے وہ چونک گیا تھا ..لوگ اسے پروفیسر تراب علی خان نعری عرف تاکن کے نام سے جانتے تھے . تاکن (تراب علی خان نعری) کا مخفف تھا ، ایک بہت بڑا مخفی علوم کا ماہر ، یہاں شہر سے کافی دور اس جنگل میں سالوں سے یکدم تنہا رہ رہا تھا ، خدا کی جستجو میں دن رات ایک کر رہا تھا یہاں ایک لکڑی کے ہٹ ( جھونپڑی) میں اس کی ضرورت کا سب سامان تھا جو ایک تازہ چشمے کے کنارے پر تھا - اس جنگل میں وحشی جانور بھی تھے مگر وہ تو ایک بوسیدہ سی چھڑی جیسے بے ضرر ہتھیار کے علاوہ کچھ نہ رکھتا تھا - اکیلا رہنا، لوگوں سے اور سماج سے دور رہنا ، دن رات خود کو محسوس کرنا ، قدرت کے قریب ہو جانا ، اور زندگی میں ایک جمود طاری کر لینا ، یہ سب اس نے اپنے لیے خود اختیار کیا تھا -
مخفی علوم کی کتابوں ، من کی آواز اور تنہائی کے علاوہ اس کا محبوب کوئی اور نہ تھا ...پتھریلے راستے ، اور جا پے جا گھاس کے میدان ، درختوں کے نیچے یا پہاڑی پر سنگ آلود نوکیلی چٹانوں سے ٹیک لگا کر بیٹھتے وقت بھی وہ مخصوص علوم کا مطالعہ کر رہا ہوتا تھا - تاروت کارڈز ، نیٹل چارٹس .پامسٹری ، آسٹرالوجی ، نیومرولوجی اور علم جفر کی گتھیاں سلجھا رہا ہوتا تھا ...ستاروں کی چال بتا رہی تھی کہ مون ٹرانزٹ شروع ہونے والا تھا ، جس کا مطلب صرف ایک ہی تھا ...' ٹرانزٹ چینج' ایک بہت بڑی اور زندگی بدل دینے والی تبدیلی ....تاکن چند دنوں سے بہت بےچین تھا - گاؤں سے ایک بس روز صبح یہاں سے گزرتی تھی ، اور آخری بس شام کو اس جنگل کنارے سے ہوتی گزرتی تھی اور پھر اگلے دن تک عام شاہراہ سے ہٹے اس جنگل کا تعلق اطراف کی آبادیوں سے ٹوٹ جاتا تھا - شام کو آخری بس کا وقت آنے والا تھا اور تب عرصے بعد اس جنگل میں اس کا ایک عام انسان سے سامنا ہوا، کسی نے اس کا نام پکارا، اس وقت وہ ہٹ میں بیٹھا مون ٹرانزٹ کے بارے میں سوچ و بچار کر رہا تھا، وہ ششدر سا باہر آیا تو سامنے موجود اس لڑکی نے کہا
' تاکن! مجھے مخفی علوم سکھا دیں '
وہ کافی دیر تک کچھ کہنے کے لیے مناسب الفاظ سوچتا رہا ، جبکہ لڑکی کافی نروس نظر آ رہی تھی
' تم ' وہ یہ کہ کر پھر لڑکی کو گھورنے لگا ...' تم کون ہو ؟ یہاں اس وقت...'
وہ چپ ہو گیا ...فضا میں عجیب سی بےچینی تھی ، اسے لگا مون ٹرانزٹ کی پہلی نشانی یہی لڑکی ہے ...
لڑکی نے جلدی جلدی کہنا شروع کیا ، کہ وہ زندگی سے بہت پریشان ہے ، اور وہ آخری حد تک جانے کو تیار ہے بس اس کے مسلۓ حل ہو سکیں تبھی وہ یہاں آئی ہے - لڑکی نے بتایا کہ کیسے اس نے تاکن کا پتا حاصل کیا ، قریبی گاؤں والوں نے بڑی مشکل کے بعد اسے یہاں کا بتایا . لڑکی نے تاکن کو گاؤں والوں کی وارننگ نہیں بتائی ' ہم نے تمھیں سمجھا دیا مگر تم اب بھی جا رہی ہو تو اپنی ذمے داری پر جانا وہاں ، اور شام کی بس سے لازمی واپس آ جانا...تاکن پہلے بھی ایک دو لڑکیوں کو (اپنے چنگل میں پھنسا کر اپنا مطلب پورا کر چکا ہے ) عام لغت میں 'سڈ یوس' کر چکا ہے ' لڑکی نے تاکن کو اپنے اوپر کالے جادو ہونے کا شبہ ظاہر کیا اور اصرار کیا کہ وہ ان علوم سے صرف حل ہی نہیں چاہتی بلکہ وہ سچے دل سے سیکھنا چاہتی ہے اس دوران تاکن خاموشی سے اس کی باتیں سنتا رہا ، اس نے ایک لفظ بھی نہ کہا ...
جب وہ لڑکی خاموش ہوئی تو تاکن نے سرد لہجے میں کہا
' یہ جانتے بھی کہ گاؤں والوں نے کیا کہا ، تم پھر بھی یہاں موجود ہو ؟'
لڑکی کی آنکھیں حیرت سے پھیل چکی تھیں ، وہ سمجھ نہ پائی کہ تاکن کو اس بات کا جو اس کے ذھن میں تھی کیسے پتا چل گیا ...' شاید اسے اپنی شہرت کااندازہ ہے ' لڑکی نے یہی سمجھا اور کسی ردعمل کا اظہار نہ کیا، اسے لگا کہیں کوئی بات تاکن کو بری نہ لگ جائے اور وہ اس کا استاد بننے سے انکار کر دے ...
تاکن نے جواب کا انتظار کیا اور پھر اسی پتھریلے لہجے میں کہا
' شام کی بس جانے والی ہے ...کل صبح تک کوئی بس نہ ہو گی ، تم اب بھی رکنا چاہتی ہو ؟'
'ہاں ' لڑکی نے مختصر یک لفظی جواب دیا
'آؤ مرے ساتھ ..' تاکن یہ کہ کر آگے چلنے لگا ...لڑکی خاموشی سے اس کے پیچھے پیچھے چل رہی تھی ...
*************
تاکن درختوں سے آتی سورج کی کرنوں میں نہایا ، اس جنگل میں زیگ زیگ انداز میں چل رہا تھا ، لکٹری کے تختے پھلانگتا ، درختوں کی ٹہنیاں ہٹاتا ، ایک خاص انداز میں بیحد پھرتی سے چل رہا تھا ...وہ سوچنے لگی کہ اس کی عمر کم از کم پچاس سال تھی، مگر اس کی چال میں جوانوں والی پھرتی تھی ...اس کے چہرے پر ایک عجیب سی معصومیت تھی، جیسے بچوں کے ہوتی ہے ، تراشی سفید داڑھی اس کی سرخ و سپید رنگت پر بیحد سجتی تھی ، اس کے لمبے بال کالے تھے جو کندھوں تک آتے تھے اس کا قد لمبا، اور جسم کسرتی تھا بلاشبہ وہ بیحد دیدہ زیب اور چارمنگ لگتا تھا ، اس کی شخصیت بیحد مقناطیسی تھی مگر دو چیزیں جیسے اس کے وجود پر ایک رکاوٹ سی تھیں ، ایک اس کے داہنے گال پر کھنچا ، جاقو یا خنجر کا زخم تھا اور دوسری چیز اس کی پرسرار ، بیحد گہری اور حاوی ہو جانے والی کالی آنکھیں تھیں ...ان میں ایک وحشیانہ سی چمک تھی ، جب وہ اس کے سامنے کھڑی تھی تو ان آنکھوں میں دیکھ نہ پا رہی تھی وہ بات کرتے کرتے ادھر ادھر دیکھ رہی تھی ، ان آنکھوں میں کچھ خاص بات تھی جو وہ سمجھ نہ پاتی تھی ...چلتے چلتے کافی دیر ہو چکی تھی ، سورج کی کرنیں جو چھن چھن کرتی ، درختوں میں سے آ رہیں تھیں اب معدوم ہو چکی تھیں ...اندھیرا بڑھ رہا تھا اور ان کے پاس روشنی بھی نہ تھی، وہ تاکن کو کہنے لگی کہ ٹارچ وغیرہ ہو تاکہ گھپ اندھیرے میں ٹھوکر نہ لگ جاۓ ...
اسی وقت تاکن نے اچانک مڑے بغیر کہا ،
' میرے ساتھ ساتھ چلو ...اندھیرا بڑھ چکا ہے '
وہ مزید حیران ہوئی اور سوچنے لگی کہ اس شخص کو ہر بات کا پہلے سے کیسے پتا چل جاتا ہے
تاکن جانتا تھا کہ آج رات فیصلہ ہو جانا ہے ...تبدیلی کے سب نشان موجود تھے اور مون ٹرانزٹ کا وقت شروع ہو چکا تھا، ظاہر ہے اس نے اس لڑکی کو کچھ نہ بتایا تھا ...اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ مستقل کھیل رہی تھی -لڑکی کافی تھک چکی تھی ، چڑھائی پر اس کا سانس تیز ہو گیا ...گڑھے اور کھائیاں الگ مصیبت تھے ...' میں کیا کر رہی ہوں؟ میں یہاں کیوں ہوں ؟ ' اس نے پہلی بار تنگ آ کر سوچا ...گاؤں والوں نے اسے وارننگ بھی دی تھی ...مگر اب جو ہونا تھا ہو چکا ، اب رسک اٹھا ہی لیا ہے تو بھاگنے کا کیا فائدہ ؟ جو ہو گا دیکھا یے گا! وہ یہ سوچ کر تھوڑی پر سکون ہوئی - تبھی جنگل ختم ہو گیا، اس کے ساتھ ہی ایک گھاس کا میدان سا تھا جس سے جڑی ایک پہاڑی تھی جو اندھیرے میں ڈوبی کافی خوفناک لگ رہی تھی ...چاند بادلوں میں چھپا تھا اور نیچے شدید اندھیرا تھا مگر جنگل ختم ہوتے دیکھ کر اسے لگا اس کے سر سے بوجھ اتر چکا تھا ، اس جنگل میں اسے ڈر بھی لگ رہا تھا ...تاکن ایک جگہ کھڑا ہو گیا ...اس نے اپنی آنکھیں لڑکی پر جما دیں جو ان کھوجتی نظروں کی تاب نہ لا کر آسمان کو دیکھنے لگی ...
' یہ ستارے دیکھ رہی ہو ؟' تاکن بولا
' ہاں تاکن'
'یہ جھوٹ نہیں بولتے ' اس کا لہجہ پرسرار تھا ، لڑکی نے اچنبھے سے تاکن کو دیکھا ، وہ سمجھ نہ پا رہی تھی کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے
وہ گڑبڑا کر ، تھوک نگلتے ، بس اتنا کہ سکی ' اچھا ؟'
تاکن نے کچھ دیر تک کچھ نہ کہا پھر آسمان کو دیکھتے ہوے بولا ' میں تمہارا استاد صرف ایک شرط پر بن سکتا ہوں ، تمہیں یہ سب علوم صرف ایک سوال کے جواب پرسکھا سکتا ہوں ...مگر مجھے سچ اور صرف سچ سننا ہے ورنہ تم ابھی یہاں سے واپس چلی جاؤ گی - منظور ہے ؟'
لڑکی کے دماغ میں اندیشوں کے سانپ سے رینگنے لگے ...یہاں وہ بے بس تھی ...وہ کیا چاہتا تھا؟ اسے کچھ علم نہ تھا، مگر اس کے پاس اس چیلنج کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ...
اس نے مظبوط لہجے میں کہا ' ہاں میں سچ بولوں گی ..' پھر فاتحانہ نظروں سے تاکن کو دیکھنے لگی ' مجھے آپ کا چیلنج منظور ہے تاکن'
یہ سن کر تاکن کا چہرہ اندھیرے میں بھی جیسے جگمگا سا اٹھا اس نے لڑکی کو اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور پہاڑی کی طرف بڑھ گیا ...
پہاڑی پر پہنچتے انھیں آدھ گھنٹہ اور لگ گیا ... وہاں پر ایک ہموار جگہ پر تاکن چوکڑی مار کر بیٹھ گیا ...کچھ فٹ کے بعد ڈھلوان تھی جو سیدھی نیچے ، سینکڑوں فٹ نیچے گہرائی میں گرتی تھی ...لڑکی بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئی پیچھے ایک عمودی چٹان کا حصہ ، ایک بینچ کی طرح تھا اور سامنے خوفناک گہرائی تھی ...کچھ دیر مکمل خاموشی رہی تبھی ہلکی ہلکی چاندنی میں ایک سائے نے نیچے کہیں جنگل میں حرکت سی کی ، لڑکی کو اپنے جسم پر پھریریاں سی محسوس ہوئیں وہ ڈر کر تاکن کے اور قریب ہو گیئی .
' فرض کرو ' تاکن نے اچانک اسے مخاطب ہو کر کہا ' میں تمھیں سکھا نے پر، تمام کائنات کے مخفی علوم سکھانے پر راضی ہوں ...اور تم بھی دل لگا کر ان کو سیکھتی ہو ، سمجھتی ہو ...چند سال گزر جاتے ہیں ...اب تمھیں سیکھتے سیکھتے کافی عرصہ ہو چکا ہے، بنیادی چیزوں کو تم سمجھ چکی ہو اور اب مشق کرتی ہو ...ہر روز گھنٹوں تمھیں تعلیم دی جاتی ہے اور فرض کرو تم حرکت سے سکون اور جمود سے مشاھدہ تک کا بنیادی عمل سیکھ چکی ہو اور ...تب '
' تاکن سانس لینے کو رکا ، اس کی پتھریلی نگاہیں اب بھی اس لڑکی پر فوکس تھیں ...لڑکی اس گیان کو دل جمی سے سن رہی تھی وہ سمجھ رہی تھی کے یہ سوال اتنا آسان نہیں ہو گا جتنا اس نے اندازہ لگایا تھا
' پھر ؟' لڑکی سے رہا نہ گیا
تاکن اسی سرد لہجے میں کہتا گیا ' تب ..ایکدن تم گاؤں جاؤ ...کسی کام سے ، کچھ چیزیں لینے ...اور وہاں تمہاری ملاقات تمھارے سچے محبوب سے ہو جاۓ ایسا مرد جسے دیکھتے ہی تم اس سے محبت کرنے لگو ...تمھیں لگے وہ تمھارے ادھورے وجود کا گمشدہ حصہ ہے جسے پا کر تمہاری زندگی مکمل ہو چکی ہو ...اور تم دونوں کی محبت پروان چڑھے ، دن کو تم مخفی علم سیکھو اور رات کو محبت کے راز جانو ...تو ایک دن ایسا آے گا جب یہ دونوں چیزیں ساتھ نہیں چل سکیں گی ...تمھیں ان دونوں ، اس مخفی علم کو سیکھنے اور اپنے سچے محبوب کی رفاقت میں سے ایک کو اختیار کرنا ہو گا ...کسی ایک کو چھوڑنا ہو گا ..تو سچ اور صرف سچ بتاؤ تم کیسے اختیار کرو گی ؟' تاکن خاموش ہو گیا
...لڑکی اس سوال پر پریشان ہو چکی تھی ، اس نے کمزور سا احتجاج کرتے ہوے کہا
' میں ...میں ان دونوں کو آپس میں ٹکرانے نہ دوں گی ، دونوں چیزیں چل سکتی ہیں '
'نہیں ' تاکن نے ذرا غصے میں اس کی بات کاٹ دی ' میرا سوال یہ نہیں ہے ، صرف یہ بتاؤ تم کس کو اپناؤ گی کس کو چھوڑ دو گی، صرف سچ بتانا کہ جھوٹ بول کر تم بچ نہیں سکتی اور سچ مجھے پتا چل ہی جاتا ہے ! '
لڑکی گہری سوچ میں ڈوب گیی ، اس نے اپنے تیس سالہ زندگی میں کتنی مرتبہ محبت کی تھی اور ہر دفع اسے لگا یہی اس کا سچا محبوب ہے مگر وقت کی دیمک اس محبت کو کھا جاتی تھی تو یہ سچا محبوب اس کے نزدیک ایک افسانوی چیز تھی ، مگر ساتھ ہی ساتھ اسے یقین تھا کہ ہر شخص دو حصوں میں بٹا ہوتا ہے اور جب تک وہ دونوں حصے دنیا میں نہیں ملتے بے قرار رہتے ہیں ...ایک مرد ، ایک عورت مل کر ایک حصہ یا 'روح کے ساتھی ' بن جاتے ہیں ، جوڑا بن جاتے ہیں اور ایسے صرف ایک ہی سول میٹ یا روح کا ساتھ ہو سکتا ہے اور وہ جب تک نہیں ملتا لوگ ناکام محبتیں کرتے ہیں یہ سب اس نے ایک مخفی علوم کی کتاب میں پڑھا تھا - اس کے ذہن کوئی فیصلہ نہ کر پا رہا تھا ، اگر وہ مخفی علوم انتخاب کرتی اور کوئی حقیقی سچا محبوب آ جاتا تو اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی تباہ کر دی تھی - وہ اب تک اس روح کے ساتھی کی تلاش میں جگہ جگہ بھٹک رہی تھی ، اور اسے یہ بھی احساس تھا اگر اس نے سچا محبوب منتخب کر لیا ، تو مسٹ اسے کبھی نہیں سکھاۓ گا ، وہ جانتی تھی اس نے سچ ہی بولنا ہے اور یہ سب ایک سبق ہی تھا ...
' میں علوم کو اس محبوب پر ترجیح دوں گی ' بالآخر اس نے فیصلہ سنا دیا ، تاکن نے چند لمحے کوئی حساب لگایا اور پھر کہا
'میں آج سے تمہارا استاد ہوں ، تم نے سچ کہا ہے ' تاکن یہ بھی جانتا تھا کہ ' روح کا ساتھی ' اور مون ٹرانزٹ یا چاند تبدیلی ایک دوسرے سے ہی نکلے تھے- جبکہ سن ٹرانزٹ یا سورج تبدیلی کا تعلق وقت اور یادوں سے تھا - لڑکی یہ سن کر بیحد خوش بیٹھی تھی
'آج تمہارا پہلا سبق ہے ...آنکھیں بند کر لو، حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرو ...ایک یہ دنیا ہے جو دکھائی دیتی ہے ، ایک وہ دنیا ہے جو غایب ہے، اور دونوں کو ملانے والا ایک پل ہے ...ایک ایسا پل جو مخفی علوم کے سیمنٹ سے بنا ہے ...تم اس پل پر پہلا قدم رکھ رہی ہو ...جب محسوس کرو کہ تم اس پل پر ہو تو آنکھیں کھول لینا ' تاکن نے تحکمانہ لہجے میں کہا -
لڑکی نے فورا آنکھیں بند کر لیں ...وہ زندگی اور موت ، حقیقت اور فکشن، جادو اور حق، جھوٹ اور سچ، رحمان اور شیطان، دنیا اور آخرت، جنت اور جہنم ان سب کے درمیان موجود اس ' پل' پر خود کو محسوس کرنے کی کوشش کر تھی ...ایک ایسا برج یا پل جو نظر نہیں آتا مگر جس کا وجود ثابت ہے، میرا اور مرے روح کے ساتھی کے درمیان بھی تو ایک پل ہے ..اس نے سوچا ، اسے کچھ سمجھ نہ آ رہا تھا ، چیزیں مشکل تھیں ، چند لمحوں بعد ہی اس کا سر چکرانا شروع ہو گیا اور اس نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں ...تاکن وہاں نہیں تھا ، اور وہ اس چٹان پر ، اس کالی رات میں اکیلی تھی ...
*************
وہ کافی دیر تاکن کا انتظار کرتی رہی مگر وہ نہ آیا ،ایسی اندھیری رات میں بچبن کی خوفناک کہانیاں حقیقت کا روپ دھار رہیں تھیں ، بھوت ، چڑیلیں ، جنگل کے خوفناک جانوروں کی آوازیں ، سائے ...اور اسے ہر جگہ متحرک ساۓ سے ہلتے نظر آ رہے تھے، خوف کی شدت میں اس کا حلق خشک ہو چکا تھا ...چند لمحے وہ ضبط کرتی رہی مگر کسی کے بیحد قریب سے چلنے کی آواز پر وہ بیحد ڈر گیئی اس نے اونچی آواز میں کہا .
'ک -کون ہے وہاں ؟'
کوئی جواب نہیں آیا ، مکمل سکوت ، بھیانک خاموشی تھی -
اس نے اپنے ماتھے پر موجود پسینہ صاف کیا ، اسے رہ رہ کر خود پر غصہ آ رہا تھا کہ آخر وہ یہاں اس شخص پر اعتبار کر کے کیوں چلی آئی جو اسے یوں مرنے کے لیے اکیلا چھوڑ گیا تھا ، اس نے سوچا وہ خود چلی جایے مگر چٹان سے نیچے کا راستہ اس گھپ اندھیرے میں بیحد خوفناک تھا، پھر وہ جنگل تک پہنچ بھی جاتی تو آگے کیا کرتی ؟ اسے احساس ہو چکا تھا وہ یہاں کی قیدی تھی ، ایسی قید جس سے چاہ کر بھی نہ نکل سکتی تھی ، تاکن وہاں پر نہیں تھا، اور اس تنہائی میں رات کے بھیگتے بھیگتے ، اس کے شر میں ، اس کی خوفناکی میں اضافہ ہوتا گیا ...طرح طرح کی آوازیں آنے لگیں ، پھر اسے لگا کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا ہے اس نے بے اختیار چیخیں ماریں ، اور اچھل کا ایک طرف موجود پتھر کے بینچ نما چٹان پر بیٹھ گیئی ، کندھے پر ہاتھ رکھنے کے احساس کے بعد اس کی حالت خراب ہو چکی تھی ، وہ بری طرح کانپ رہی تھی - اس نے تاکن کو بلا ارادہ کوسنا شروع کر دیا ، وہ نیم دیوانگی کی حالت میں جا چکی تھی ، خوف و شدید ڈر نے اس کی ذہنی صلاحتیں ختم کر دی تھیں ...تبھی اسے اچانک رونا آ گیا اور وہ مسلسل تب تک روتی رہی جب تک آنسو ہی خشک نہ ہو گیے - ڈر ڈر کر، سہم سہم کر ، اس نے کچھ وقت گزار ہی دیا ...تبھی اسے لگا کوئی چیز سمجنے موجود ڈھلوان سے اسے دیکھ رہی ہے ...عجیب چھلاوا جیسی چیز تھی ، اس کی رگوں میں خون ہی منجمد سا ہو گیا ، اس کے رونگھٹے کھڑے ہو چکے تھے ، روں روں میں اذیت، تکلیف اور خوف تھا ، رات کا خوف ، انجانے کا خوف ...اور ان چیزوں کا خوف ...اس نے بے بسی سے اپر کھلے آسمان کو دیکھا ، جہاں چمکتے ستاروں کی روشنی بیحد خوبصورت تھی ، وہ اس قدر تنگ آ چکی تھی کہ اس کا ذہن ماؤف ہو چکا تھا ...اس نے اپنے جسم میں بیزاری کی لہر محسوس کی ، یہ پل پل ، لمحہ لمحہ موت سے تو ایک دفع کی موت بہتر ہے اس نے جنجھلا کر سوچا ...
' جو بھی ہو ...سامنے آؤ ، میں یہاں ہوں ...آؤ' وہ اچانک کھڑی ہو کر چیخنے لگی ...اس کی نظریں اس خوفناک چھلاوے پر تھیں
' آتے کیوں نہیں ؟ میرا کام تمام کر دو میں یہاں ہوں ..بولو ...ڈرپوک سامنے آؤ ' وہ ہزیانی لہجے میں کہ رہی تھی ، تبھی اسے لگا جیسے وہ چھلاوا اب وہاں نہیں تھا ، وہ بے اختیار زور زور سے ہنسنے لگی
'بھاگ گیا ...ڈرپوک، مجھ نہتی سے ڈر کر بھاگ گیا ...' اس کی ہنسی تھم نہ رہی تھی ، وہ خوف کی آخری حد تک جا چکی تھی ، اور اسے پار کرتے ہی اب اسے خوف ہی محسوس نہ ہو رہا تھا ، یہ ایک نیی چیز تھی ، ایک عجیب تجربہ تھا ...تبھی اسے یاد آیا ' تاکن ' نے کہا تھا کہ آج اس کا پہلا سبق ہے ...تو یہ سب کیا ایک سبق تھا ، خوف پر قابو پانا ایک سبق تھا ؟ وہ سوچنے لگی ...تبھی اس کے دماغ میں ایک خیال بجلی کی طرح لپکا
' کہیں خوف اور بہادری میں بھی ایک پل تو نہیں ہے ؟ اور میں نے اس پل پر پار جا کر دیکھ لیا ، یہ خوف بھی ایک بودی چیز ہے ' اس نے خود کلامی کرتے ہوے کہا
...اب وہ بیحد اطمینان سے اسی بینچ پر بیٹھ چکی تھی ، اسے یہاں چار گھنٹے سے زاید وقت بیت چکا تھا ، اور اب وہاں وہ بھوت، چڑیل، ساۓ ، جانور اور رات کی خوفناک آوازیں سب موجود تھے مگر اس کا خوف نہیں تھا، اور یہ سب جیسے اب کوئی اہمیت نہ رکھتے تھے ...اس نے آنکھیں موند لیں ...اور چند لمحوں بعد وہ سکون سے سو رہی تھی، اکیلی تنہائی، اسی چٹان پر ...تاروں کی چمک بڑھ چکی تھی ، چاند بادلوں کی اوٹ سے باہر آ چکا تھا - اور مون ٹرانزٹ شروع ہو چکا تھا -
*************
تاکن جنگل میں ایک گرے درخت کی اوٹ سے کافی دیر سے پہاڑی پر اسے دیکھ رہا تھا، اس کی چیخنے اور رونے کی آوازیں سن رہا تھا، اس کا دل چاہا کہ جا کر اس کو دلاسہ دے اور اسے اس کی اذیت سے نجات دلا دے ، ایک لڑکی کے لیے یہ پہلا سبق بہت مشکل تھا، مگر جب بھی وہ پہاڑی کی طرف جانا چاہتا تھا، اس کے قدم رک جاتے ...وہ اس 'تبدیلی ' اور اس لڑکی کی یہاں آج موجودگی کا تعلق جاننا چاہتا تھا ، جب وہ چیخ چیخ کر کہنے لگی 'جو بھی ہو ...سامنے آؤ ، میں یہاں ہوں ...آؤ' تو تاکن کا ضبط جواب دے گیا اس نے چند قدم پہاڑی کی طرف بڑھاۓ ہی تھے کے اس لڑکی کے ہنسنے کی آوازیں سنائی دیں، اور پھر وہ نارمل ہوتی چلی گیئی اور تاکن مسکراتے ہوے پھر واپس اسی درخت تک پہنچ گیا ، چند لمحوں بعد وہ اسے چاند کی فسوں انگیز روشنی میں سوتے دیکھ سکتا تھا ، اس نے اپنے دل کی دھڑکنیں تیز ہوتی محسوس کیں ، مون ٹرانزٹ سچا تھا -
' تم ہی ہو ...تم ہی ہو میری روح کی ساتھی ' تاکن اس لڑکی کو محویت کے عالم میں تکے جا رہا تھا - وہ پراسرار مسکراہٹ گہری ہو چکی تھی ، اور اس کی آنکھیں موتیوں کی طرح چمک رہی تھیں-
*************
صبح جب وہ جاگی تو پچھلی رات کے تحیر انگیز حصوں پر سوچنے لگی ، پہاڑی سے نیچے اتر کر وہ جنگل میں کچھ دیر ہی چلی اور تاکن کا خالی ہٹ نظر آیا اور وہ سوچنے لگی تاریکی میں فاصلے کتنے بڑھ جاتے ہیں، پھر وہ روڈ تک پہنچی اور پہلی بس سے وہ گاؤں پہنچ چکی تھی ، کل رات اس کی زندگی کی ایک یادگار رات تھی ...گاؤں سے شہرکا راستہ اس نے ان ہی خیالوں میں گزارا ...بچپن سے جوانی ، اور جوانی سے آج کا دن ....یہ سب کیسا حیرت انگیز ہے ؟ جب وہ اپنے ہاسٹل کے کمرے میں پہنچی تو اس کی روم میٹ نے اسے دیکھتے ہی حیرت سے کہا
'یہ تمھارے چہرے پر خون کیوں لگا ہے ، شینا ؟'
شینا وہیں منجمد ہو کر رہ گیئی !
(جاری ہے )
to be continued
Written By Kashif Ali Abbas
معلومات