آدمی عشق کر گزرتا تھا
جاں بلب تھا مگر گزرتا تھا
عادتِ خاص تھی، چُھٹی کب تھی
اپنی خود جاں سے پھرگزرتا تھا
راستے تو کٹھن نظر آئے
ضد میں تھا، ہاں، میں پر گزرتا تھا
پُرزہ دل کا تبھی چلا میرا
تیری گلی میں مر گزرتا تھا
میں کھڑا پُل صراط پر اک دن
ڈرتا ہر نام ور گزرتا تھا
دنیا میں اس جگہ سبھی گزرے
کچھ چھپا مال و زر گزرتا تھا
وہ نواسہ نبیﷺ شہیدِ دیں
یاں کٹا خوں میں سر گزرتا تھا
دنیا کاشف عجب رہی تھی کیا؟
رکتا تھا تب، اِدھر گزرتا تھا
شاعر: کاشف علی عباس

0
50