قسم شمس و قمر کی یا ارض کی
بچھونے ہیں زمیں دل نا غَرَض کی
سحر نوخیز کی، ڈھلتے پہر کی
کہ جاں افروز اس پل کیا غرض کی
ہوس کاری نشاطِ مے سواری
دھرا جامِ غمی پر لا غرض کی
سرورِ انبساطِ مستی خوش کن
بنی شوخی مزاجِ وا غرض کی
سخن صیاد میخانہ بیاں کر
غنیمت بے خودی ہو جا غرض کی
چلے کاشف جدھر سود و زیاں ہے
ملی ہے کیا شکستِ پا غرض کی

0
91