مِرا ہی عشق جب مِرے مُقابل آ گیا
بنا ہے باغی، ایک اور قاتل آ گیا
فروغ انجمن شُروع جب کبھی ہوئی
سجی تھی محفلِ ادب کہ جاہل آ گیا
میں لُطف موجِ دریا، مستی میں رہا تھا گُم
ذرا چلی جو کشتی میری، ساحل آ گیا
میں نے منایا تو تھا دل، مگر اٹل رہا
اُسی پہ جا مَرا، اُسی پہ پاگل آ گیا
سماج سارا بھر چُکا مُنافقوں سے اب
منافقت میں زہر بھی ہلاہل آ گیا
نیا جو عشق کر لیا، مزہ بہت ملا
تھی کاشفِ نگاہ میں جو بادل آ گیا
-------------------------------
وزن : مفاعِلن مفاعِلن مفاعِلن فَعَل
بحر :ہزج مثمن مقبوض محذوف
شاعر: کاشف علی عبّاس
© 2023 جملہ حقوق بحق شاعر محفوظ©

0
47