یہ تو ذکر حیدرؑ کا ہے،
یہ داستاں علیؑ کی ہے
اونچی ہے ذات مولا کی،
بحرِ بے کراں علیؑ کی ہے
جب حق دبا تھا باطل سے
سچی زُباں علیؑ کی ہے
ہجرتِ شب عجب عالم
بستر پہ جاں علیؑ کی ہے
مشکل کُشا شیرِ خدا
ہر آزاں علیؑ کی ہے
میدان جنگ میں ہر اک
ضربِ ناگہاں علیؑ کی ہے
بسم اللّه کی جو بِ ہے وہ
ناطق قُرآں علیؑ کی ہے
نعرہ علیؑ لگا کر اٹھ
قٙلندراں علیؑ کی ہے
مرحب ہو یا کہ لشکر ہو
صورت ایماں علیؑ کی ہے
خیبر ہے مظہر ِ حیدر
خندق نشاں علیؑ کی ہے
دیکھی ہے سلطنت وہ کیا ؟
بس لا مکاں علیؑ کی ہے
کاشف حکومتی حد بھی
ہر سُو کہاں علیؑ کی ہے؟
شاعر : کاشف علی عبّاس

0
72