【افطاری】 【داستان】 【قبل】 【از】 【کرونا】 【2019】
افطاری کا وقت قریب سے قریب ہوتا جا رہا تھا ...میرا دل بلیوں اچھل رہا تھا اور میں ملکوتی سی، آفاقی سی مسرت محسوس کر رہا تھا - اس مسجد کی افطاری کی بہت تعریف سنی تھی کہ یہاں کھجور میں اجوا، کیئ قسم کے پکوڑے، سموسے ، فروٹ و چنا چاٹ ، دودھ روح افزا تو صرف شروعات تھے ...راوی کہتا ہے (یہاں راوی سے مراد میرا دوست کمال ہے جس کویہاں افطاری کا شرف حاصل ہو چکا تھا اور کل ہی افطاری نوش جان کر چکا تھا اور اسی کی حوصلہ افزائی پر میں یہاں مفت افطاری کو موجود تھا...یہ لا ہور کے پوش علاقے ڈیفنس کی جامع مسجد تھی -)چکن، مٹن اور بعد میں فیرنی بھی مینو میں شامل تھیں ...اب آپ حساب لگا لیں کہ اتنا زیادہ مینو توعام سےعام اور سستے سے سستے ہوٹل میں بھی ٩٠٠ روپے تک تو کم از کم چلا ہی جاتا ہے-(عوامی کے ریٹس کے مطابق) مہنگائی کو تو پر ہی لگ گیے ہیں - نئی حکومت کے آتے ہی موبائل ٹیکس کا تحفہ تو آپ سب کو مبارک ہو ہی چکا ہے آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟ تواتنا سب کچھ مفت میں ملنے کا سوچ کر ہی میری تو جیسے لاٹری نکل آئی تھی ویسے داتا صاحب سے مفت دیگوں سے ہر لاہوری کی طرح میں بھی فیضیاب بلکے پیٹ یاب ہو چکا تھا مگر افطاری وہ بھی ایسی مفت اور اتنی لذیذ کا پہلا چانس تھا .میں بار بار مسکراتا اور خود سے کہتا کہ .بس اب کچھ دیر کی بات تھی اور پھر ہم ہوں گے اور یہ مقامات آرام و طعام !!! میں بڑی کمال فرحت محسوس کر رہا تھا
تبھی باجو میں بیٹھے ایک با ریش صاحب نے میرا کندھا ہلا یا ...اچھے خاصے مذہبی بزرگ لگتے تھے مگر جس بےتکلفی سے اس ناچیز کا کندھا جکڑا اور ہلایا میں کافی کچھ خفا سا ہوگیا - شرافت بھی کسی چڑیا یا کبوتر کا نام ہے - شرارتی بزرگ کہیں کا !
' جی فرمایے؟' میں نے ہر ممکن حد تک لہجے کو پرسکون اور مہذبانہ رکھتے ہوے ان سے پوچھا
'اس شرارتی بزرگ نے کوئی جواب نہ دیا ،جیسے مراقبے کی حالت میں چلے گیے تھے--ان کے کندھے ڈھلک سے گیے تھے ، زندہ لاش کا گمان ہوتا تھا - ...میں حیران تھا کے اب کیا کروں کے اچانک انھوں نےبند آنکھیں کھولیں ایک فلک شگاف نعرہ مستانہ بلند کیا اور نعرہ اللہ ھو قسم کا تھا -پھر لوگوں کی گودوں کو ٹاپتے ، دھکے دیتے ، ٹکریں مارتے ، وہاں سےرفو چکر ہو گیۓ - اچانک ہی بھاگ کھڑے ہوے - میں تو اس اچانک حرکت سے بھونچکا ہو گیا اور میرے رونگھٹے ہی کھڑے ہو گیے کہ اے خدا یہ کیا چیز تھی اور کیا چاہتی تھی؟ سب لوگ پہلے تو یہ سمجھے کہ کوئی دہشت گرد حملہ ہو گیا ہے اور چپلوں، جوتوں کو پیچھے چور کر بھاگ نکلے ...یہاں بھی پولیس والے سب سے آگے تھے ..پولیس ایسے موقوں پر بھاگنے میں آگے ہی ہوتی ہے ، جی ہاں بھاگنے میں !!! خیر خالی پنڈال میں چند گجراتیوں کو جوتوں پر اور لاہوریوں کو رنگ بازی کا موقعہ مل گیا...خدا خدا کر کے صورت حال پھر نارمل ہوئی اور سب کو یقین دلایا گیا کے اطمینان سے تشریف رکھیں کوئی پاگل مزاق کر گیا ہے کوئی حملہ وملا نہیں ہوا ...تو سب کی جان میں جان آی ورنہ حالت روزہ میں شہادت قریب تھی - سب پھر سے امید افطار مفت میں سکون سے بیٹھ گیے ...پاؤں پسار کر، حالات حاضرہ پر گفتگو کرنے لگے ... تبھی دوسرا وقوعہ ہو گیا !!!
انسانی نفسیات میں یہ چیز شامل ہے کے اگر کسی چیز سے بندا ڈر جایے تو وہ ہرچیز میں میں اس کا کوئی نہ کوئی پہلو تلاش کر ہی لیتا ہے ، ظاہر ہے اس سے خائف جو ہوتا ہے ...شہر کے حالات ، ملک کے حالات ویسے ہی دہشت گردی کے حملوں سے سجے تھے ...نہ مسجد محفوظ نہ امام بارگاہ نہ افطاری محفوظ نہ سحری..لوگ تو یہی سمجھتے تھے کہیں بھی ، کسی بھی وقت کچھ ہو سکتا تھا ...مسلمان ہونے کے لحاظ سے ہم موت کو اٹل سمجھتے ہیں مگر جناب کون کمبخت بھری جوانی میں مرنا چاہتا ہے؟ اورخاص طور پر مجھ جیسے تھڑ دلے اور بزدل قسم اور رنگ باز لاہوریے تو ایسی لسٹ میں شامل ہی نہ ہوں - ہمارا بس چلے تو موت کےفرشتے سے بھی مذاکرات کر کے کچھ وقت درازی عمرمانگ لیں وہ جو بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا
عمر دراز مانگ کے لایے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گیے ، دو انتظار میں
.اک پکے لاہوری اور موت کے فرشتے کا فرضی مکالمہ
لاہوریا : ' جی جناب کیسے آنا ہوا؟"
' ظاہر ہے ... وقت روانگی ہے ...جان نکالنے آیا ہوں '
لاہوریا: ' یاڑ جی دوبارہ کہیے ؟'
' جان نکالنے ...آیا ہوں '
لاہوریا: ' ایک آخری سگریٹ سلگا لوں ' لاہوری ایسی بھولی صورت بنا کر ملتجی ہوا کرتے ہیں کے بس !
' اب کون انکار کر سکتا ہے ...لگا لو '
لاہوریا: ' ذرا داتا صاحب کا چکّر لگا لوں ..آخری سلام ..' اور پھر بیوی سے سسرال اور سسرال سے ہر ایک نا آسودہ خواہش پیش کر دی جاۓ گی ...پھیلنے میں کتنا وقت لگتا ہے بھلا ؟ شنید ہے لاہوریوں کو اسی لیے وقت آخر بلکل وقت نہیں دیا جاتا ہو گا، ورنہ یہ تو کبھی نہیں مریں گے ...چرب زبانی تو ویسے ہی ان کی گھٹی میں ہے - مجھے لاہوری ہونے پر فخر تو ہے مگر کچھ کچھ افسوس بھی ہے ...کے کاش لاہور جیسی سپرٹ باقی ملک کی بھی ہو جاۓ ..مست زندگی، بے فکر ماحول اور چلبلےخیالات و رنگ بازی ہوں تو آدھے مسایل ملک کے چٹکی بجاتے ہی حل ہو جائیں !
تو جی بات دوسرے وقوعے کی ہو رہی تھی جیسے ہی اس پاگل بزرگ والا ڈرامہ ختم ہوا، اور لوگوں کے ذہن پر دہشت گردی کے متوقع حملہ کا ڈر دور ہوا ہی تھا کے ایک نابکار، جفا کار نونہال نے دس روپے والا شبرات پٹاخہ عین لوگوں کے بیچ' ابّے کا گھر' سمجھ کر چلا دیا ...پہلے سے ہی ذہنی طور پر محتاط لوگ اور میں بھی سچ مچ اس کو اصلی بم دھماکہ سمجھ بیٹھے .اور .بوکھلا کر سچی مچی بھاگ نکلے ...میں تو اپنی موٹرسائکل پر گلبرگ تک راہ فرار میں آ چکا تھا ...اب جوہر ٹاون سے ڈیفینس کا سفر کرو ١٥٠ کا پٹرول لگ جاتا ہے ...تو یہ مزید ٥٠ اور گیا ...اب ٢٠٠ کا پیٹرول لگ چکا تھا اوربلے بلے ہی نہ ہوئی تھی ، یعنی پاپی پیٹ کی کوئی پوجا نہ ہو سکی تھی اور شیخ ہونے کےناطے بہت ہی گھاٹے کا سودا تھا ، بڑی بستی کی بات تھی .میں ڈر کر یہاں گلبرگ آ تو گیا تھا مگر دل ابھی بھی وہیں ، اس دسترخوان پر اٹکا تھا ...کچھ نظر ادھر بھی تھی ...تو ایک چکّر ادھر ادھر کا لگا کر اپنے پیسے کھرے کرنے پھر وہیں آ دھمکا تومنظر ہی کچھ اور تھا ...وہاں ایسے خاموشی تھی کے لاہور کے میانی صاحب قبرستان کا گمان ہوتا تھا...یعنی رنج سے خوگر ہو انسان تو مٹ جاتا ہے رنج والی صورتحال تھی ... میں بھی اس نونہال کو کوستا وہیں بیٹھ گیا .اب کے جگہ کافی دور ملی ..افطاری میں چند منٹ ہی بچےتھے اور میں نے سوچا ابّ کے سچی مچی بھی حملہ ہو گیا تو پکوڑے اور سموسے کھاۓ بنا نہیں ٹلوں گا .نہ پیچھے ہٹوں گا اور ایک فوجی کی طرح ، میدان جنگ کی طرح پوزیشن سمبھال کر اپبی جگہ پر میگنیٹ ہو گیا -.ایسی کی تیسی سب کی !!!
جیسے ہی آذان ہوئی ..میں نے پھرتی سے کھجور کومنہ کی سیر کروائی ہی تھی کہ تیسرا وقوعہ ہو گیا ...ایک صاحب جو شاید کچھ کچھ تھے ٹن ، بھوک اور نقاہت اور بنا وارننگ کے ٹن ہوچکے تھے، اچانک اپنے استخوانی ہاتھوں میں ناتواں روح افزاکے جگ کا وزن برداشت نہ کر سکے اور جگ سمیت ہی مجھ پرلڑھک گیے اور میں کسی اور پر جا لڑھکا ا اور ایک ہی صف میں لیٹ گیے محمود و ایاز مجھ سمیت !!
اس دھینگا مشتی کے فوری نتائج میں میرے سارے کپڑے خراب ہو گیے ، اور اس سے پہلے کے میں ان صاحب کوکھری کھری سناتا وہ افیم کی پینک سے بیدار ہو کر غایب ہو چکے تھے- الله ان کا بھلا کرے ..میں قدم گھسیٹتے .پھر لاچار موٹرسائیکل تک آیا ، ٹینکی سے کپڑا نکالا اور اپنے کپڑے صاف کیے پانی سے دھویا اور پھر مقابلہ میرا مطلب ہے افطاری میں ا بیٹھا ...تو پہلی باری، روح افزا وغیرہ کی ، ختم و خلاص ہو چکی تھی .یعنی اب چکن اور مٹن کی باری تھی میں دل کو تسلیاں دیتا اپنی جگہ پر کسی مضبوط کھمبے کی طرح جما رہا - ساتھ ساتھ احتیاط بھی کر رہا تھا کے کہیں اب کے سالن ہی نہ گر جایے گرم گرم شوربہ ہو اور میں ہوں !!! بہت احتیاط سے میں نے سالن ڈالا ڈرتے ڈرتے روٹی پکڑی سہمے سہمے پانی کا جگ لیا اور لرزتے لرزتے دعا کی کے اب کے کچھ گڑبڑ نہ ہو اور لب پر دعا تھی، پہلا نوالہ لیا ہی تھا کے ایک اور سانحہ ہو گیا ، مرچوں کا ایک طوفان سا اٹھا جو پورے وجود پر چھا گیا
روزے کا مقصد ہی شاید صبر و رضا و تسلیم ہے ...پھر جو گزری ہے قطرے پرگہر ہونے تک .... مجھے ایک فضول شخص کااقتباس یاد آ گیا
میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں
' (سمجھنے والے سمجھ چکے ہوں گے ) کچھ اسی قسم کا اقتباس تھا ...خیر تو بات کرنے کا مقصد یہ تھا کے اچھا روزہ دار لالچی نہیں ہوتا اور میری تو نییت ہی مفت افطاری اڑانے کی تھی ...میں نے اپنے دوست کمال پر کمال نفرین بھیجی اور تہیہ کیا جب بھی ملے گا اس کو ایک آدھ جھانپڑ لگا ہی دوں گا ..کمبخت کو یہی جگہ ملی تھی ریکمینڈ کر نے کے لیے !!! آنکھوں میں یہ موٹے موٹے ، وزنی پتھر جتنے آنسو آ چکے تھے ...میر نے کہا ' یہ پتھر کب تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے ' تو مجھ سے بھی یہ پتھر نہ چکے جاتے تھے تھے ، نہیں اٹھائنے جا رہے تھے ---جی ہاں شاید باورچی منحوس عینک لگایے بغیر مرچیں ڈال چکا تھا یعنی سچی مچی میرے کانوں سے کالا دھواں نکل رہا تھا !!!
آجو باجو نظر جو کی تو خلقت کا یہی برا حال تھا ...اوپر سے پینے والا پانی ختم ہو گیا بس زبان تو جیسے جل ہی رہی تھی اتنی مرچیں ...اس قدر تیز مرچیں .،.،..ظالمو فیرنی ہی کھلا دو ...کسی دل جلے کی دھائی دیتی آواز آئی !!!
مگر میں تو فیصلہ کر چکا تھا، میں نے کسی کہنہ ،مشق مداری کی طرح ہائی جمپ لگائی کسی کی ٹنڈ پر سے کودا کسی کی توند کو بائی پاس کیا اورسیدھا موٹرسائیکل پر جا پہنچا ... سوچا ابھی گلبرگ کےمشہور پراٹھے کھاتے ہیں یوسف فالودہ سے لذیذ فالودہ اور پھر کے-یف-سی سےزینگر کی کاک ٹیل بناتے ہیں تو آخری سانحہ ہو گیا ..
.کوئی کمینہ میری موٹر سائیکل کے ساتھ منہ کالا کر چکا تھا ..میرا مطلب ہے دونوں ٹائروں سے ہوا مکمل نکلی ہوئی تھی، عجب رنگ بازی ہے عجب چلبلا پن ہے..یہ تو چول ہے سیدھی سیدھی !!! دل تو اس سمے بہت کچھ کہنے کو چاہ رہا تھا مگر اسی پر اکتفا کرتا ہوں اب افطاری کے وقت پنکچر کون لگوایے ...ڈیفینس میں تو کمرشل مارکیٹ پر ہی دکان ہو سکتی تھی ظاہر ہے وہاں سے گھنٹہ بھربمع موٹرسائیکل پیدل مارچ کرتا رہا اور خود کو ، اپنے نام نہاد دوست کمال کو اور پتا نہیں کس کس کو کوستا رہا ...وہ دن اور آج کا دن میں افطاری کا اہتمام گھر پر ہی کرتا ہوں ، ورنہ پیسے دے کر ہوٹل یا کے-یف-سی میں بوفے کرتا ہوں ...
زندگی میں صرف ایک تبدیلی یہی آئی ہے کہ اب کوئی ٥٠لاکھ بھی دے تو بھی مفت افطاری نہیں کروں گا !!!
【افطاری】 【داستان】 【بعد 】 【از】 【کرونا】
قسمے کسی ایک زی روح نے کرونا ڈر کے مارے بلایا ہی نہیں افطاری پر جبکہ مساجد میں SOP کی وجھہ سے ماسک زدہ کھجوریں اور ویکسین ملے کیلے ہیں آپ لیں گے کیا ایسا رسک ؟؟
Wrͮiͥtⷴtⷡeⷴnͣ bͫyͣ Kaͥsⷡhⷴiⷬfͮ Alⷥiⷦ Abͫbⷬaⷴsⷨ

0
89