یہ عید کہاں گزرے گی ؟
ٹرین پر محو سفرِ منزلِ نا معلوم کی طرف، سمٹتے کم ہوتے ان ادھ بدھ فاصلوں میں گزرے گی؟
یا لہلہاتے پتوں پر چھن چھن گرتی روشنی کی رقصاں کرنوں کی اداؤں پر فریفتہ گزرے گی؟
شاید لب سڑک ایستادہ مال روڈ کے میوزیم کنارے نصب بھنگیوں والی توپ کے آتشیں گولوں سے بچتے گزرے گی؟
یا مسجد علی اکبر بحریہ ٹاون کے دیدہ کش زیر تعمیر آسمان میں چھید کرتے میناروں کی بلندیوں کو ماپتے گزرے گی ؟
یا پائن اونیو ویلنشیا کی لاکھوں بھیڑ بکریوں اونٹوں اور قربانی کے دیگر جانوروں سے سجی وسیع و عریض کئ کلو میٹر پر پھیلی اس مارکیٹ میں بکرا پسند کرتے گزر جائے گی ؟
یہ عید کیا پتا خلوت محبوب کے ساتھ ، کوچہ یار میں ، مکان عشق میں کمال ایک گہرا غوطہ عشق لگانے کی مشق کرتے گزرے گی؟
یا روڈ ماسٹر کی شاندار بس میں نیم دراز کافی کی چسکی لیتے تارڑ کی کتاب پڑھتے اور کانوں میں ہیڈ فون لگے گانے سنتے مزہ کرتے گزرے گی؟
یہ عید ہو سکتا ہے نارسائی میں گزرے، سکوت بھری مری کی تنہائی میں گزرے ، قضا کی کسی قریب ایک انگڑائی میں گزرے، کچھ بیتے وقت کی آبلہ پائی میں گزرے ۔۔۔مگر جہاں بھی گزرے ۔۔۔گزر ہی جائے گی، گزرتے زمانے کے دامن میں گم ہو جائے گی، خسارے میں یا منفعت میں گزرے گی ؟
پتا نہیں، کب کیوں کیسے کس طرح یہ عید کہاں گزرے گی ؟
تحریر : کاشف علی عبّاس
چاند رات 2021-20 جولائی

0
72