یوں حالت بگڑ گئی لبِ جان پڑ گئی
وہ تھی میری زندگی وہ ہی کیوں بچھڑ گئی
ترا ذکر چُھٹتا گر کہ عادت سی پڑ گئی
لحد جا بسی نظر کہ مٹی میں گڑ گئی
تخیل میں رہتی پر جو باہر ہی گڑ گئی
کہ دنیا جلی مری کبھی ذات سڑ گئی
مجھے آتا کب اسی تکلم پہ مڑ گئی
وہ راحت کہ جان سے لگی اور جڑ گئی
وہ آنسو کی جھیل آج یونہی اتر گئی
کسک درد کاشفِ بھی سِر شام بڑھ گئی
---------------------------------
بحر: طویل مثمن مقبوض
وزن : فَعُولن مفاعِلن فَعُولن مفاعِلن

0
53